کہتے ہیں جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اترناشروع ہوجاتا ہے اسی طرح موسم کی تبدیلی کا اشارہ پرندوں کے گھونسلے چھوڑنے سے ہوتا ہے بیانیہ یہی صورت حال پی ٹی آئی حکومت کی ہے جس کے سربراہ عمران خان ہیں جنہوں نے کرپشن بیانیے کو اتنا دہرایا کہ یوں لگنے لگا جیسے اس ملک کا ہر آدمی ان کے علاہ کرپٹ ہے ،بلکہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں گئے اجلاس کیا یا کوئی میٹنگ اٹینڈ کی یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اجلاس جس میں ملکی معاملات کو زیر بحث لانا تھا وہاں بھی کرپشن کا دیا گیا بیانیہ دہرایا۔ ادھراحتساب کے نام پر اپنے مخالفین کا جینا حرام کر دیا میڈیا میں انہیں اتنا گندہ کیا کہ لوگ سچ مچ سمجھ بیٹھے کے صادق امین تو یہی ہے باقی سب کرپٹ ہیں۔ لیکن کہتے ہیں قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور آج ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے جب ان کی حکومت کی درجہ بندی کی تو پتہ چلا ماضی کے تمام ریکاڈ ٹوٹ چکے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی نئی کرپشن انڈکس رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16 درجے اوپر چلا گیا اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان دنیا میں 140ویں نمبر پرآگیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 ء میں پاکستان کا دنیا میں نمبر 124واں تھا اور 2020 ء میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا گزشتہ سال اسکور 31 تھا جب کہ 2021 ء میں پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا اسکور 28 ہوگیا، کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کے اسکور میں تین پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، انڈیکس کا اسکور کم ہونا کرپشن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔دوسری جانب پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکومت کوجواب دینا ہوگا کہ چیزیں بہتری کی جانب کیوں نہیں جارہیں؟ کرپشن کے خلاف بیانیہ لے کرپی ٹی آئی حکومت میں آئی تھی، رینکنگ میں اسکور اوپر جانے کا مقصد کرپشن میں کمی ہے، 2010 ء سے 2017 ء تک ریکنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی نئی کرپشن انڈکس رپورٹ کے اجراء کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تنقید کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ پاکستان ایک سو اسی ممالک میں ایک سو چالیس ویں نمبر پر ہے۔بدعنوانی کے خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے گلوبل کرپشن انڈکس ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا، جب پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری اور اپوزیشن کی تحریک سمیت کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں ان دنوں ٹوٹ پھوٹ کی خبریں گرم ہیں جبکہ اس جماعت کے اتحادی بھی اسے مختلف معاملات پر آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ چند روز پہلے وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین اختلافات کی خبریں بھی گردش میں تھیں۔ پھر قومی اسمبلی کے رکن نورعالم خان نے اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں پر شدید تنقید کی اور بعد میں پی ٹی آئی میں ان کے دیرینہ ساتھی احمد جواد نے بھی پارٹی پر تنقید کے نشتر چلائے، جن پر انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔اسی دوران وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سے ملک کے کئی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ پارٹی میں داخلی اختلافات عروج پر ہیں۔کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی کا انڈکس پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ اس پارٹی نے بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے ہی سیاست میں حصہ لیا اور عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔عمران خان سابق وزرا اعظم صدرو ،مذہبی و سیاسی راہنماوں کو کرپٹ سیاست دانوں کا ٹولہ قرار دیتے رہے ہیں اور ماضی میں ان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی لگاتے رہے ہیں اور اب خود بھی اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس رپورٹ کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت خصوصا عمران خان کو سوشل میڈیا پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جہاں پی ٹی آئی کے حامی اس رپورٹ کے خلاف بول رہے ہیں اور کئی ناقدین اسی انڈکس کا حوالہ دے کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ پاکستان کے معروف صحافیوں سمیت کئی سرکردہ شخصیات سوشل میڈیا پر حکومت پر سخت تنقید کر رہی ہیں جبکہ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن کوئی انہونی بات نہیں اور یہی کرپشن تو دوسری حکومتوں میں بھی ہوتی رہی ہے یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو ۔پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو ناقابل اعتبار قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے میڈیاکو بتایا، ''آپ کسی رپورٹ پر ایک فیصد، دو فیصد، پانچ فیصد یا دس فیصد تک جانبداری کا الزام لگا سکتے ہیں۔ لیکن اسے مکمل طور پر مسترد نہیں کر سکتے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ڈیٹا جمع کرنے کا اپنا طریقہ ہے اور یہ رپورٹ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ پنجاب میں کرپشن کا بازار کھلا ہوا ہے اور لوگ منہ کھولے بیٹھے ہیں اور بغیر کسی شرم یا جھجک کے پیسے مانگ رہے ہیں۔‘‘اسحاق خاکوانی کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریزی بولنے والا ایک مخصوص طبقہ عمران خان کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس نے یہ رپورٹ بنا دی ہے، ''جن کا ضمیر ہوتا ہے، وہ ایسی رپورٹوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘