آکٹوپس ممکنہ طور پر ارتقا پذیر ہوئی خلائی مخلوق ہوسکتے ہیں:سائنسدان

آکٹوپس کے بارے میں سائنسدانوں کا ایک نیا دعویٰ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آکٹوپس ممکنہ طور پر ارتقا پذیر ہوئی خلائی مخلوق ہوسکتے ہیں۔یہ حیران کن مگر دلچسپ نظریہ ایک مقالے میں پیش کیا گیا ہے جو ’’کیمبرین دھماکے کی وجہ ، زمینی یا کائناتی‘‘ کے عنوان کے ایک سائنسی جریدے پروگریس ان بایوفزکس اور مالیکیولر بائیولوجی میں شائع ہوا ہے۔مقالے میں کہا گیا ہے کہ آکٹوپس اور اس کے ہم نسلوں میں ایسی حیاتیاتی خصوصیات ہیں جو زمین پر کسی جاندار کے وجود میں آنے سے قبل کے امکانات کو ظاہر کرتی ہیں۔اس حوالے سے آسٹریلیا کے مالیکیولر امیونولوجسٹ ایڈورڈ جے اسٹیل کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ آکٹوپس اور اسکوئڈ ایک قسم کی معطل حرکت پذیری میں اربوں میل کا سفر کرنے سے پہلے آتش فشاں پھٹنے یا شہاب ثاقب کے اثرات سے خلا میں اڑ گئے ہوں گے۔اس امکان کو رد نہیں کیا جانا چاہیے کہ کرایو پریزروڈ اسکوئڈ اور آکٹوپس کے انڈے کئی سو ملین سال قبل برفیلی چٹانوں میں زمین تک پہنچے تھے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آکٹوپس اور دیگر سیفالوپڈس میں حالیہ اعدادوشمار سے حاصل ہونے والی کچھ جنیاتی خصوصیات روایتی ارتقائی سوچ کو چیلنج کرنے والی مثالیں فراہم کرتی ہیں۔مقالے میں اس امکان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ مریخ پر کسی بڑے سیارے کی تباہی سے سرخ سیارے کے ایک ٹھنڈے بنجر زمین میں تبدیل ہونے سے پہلے زندگی کا ارتقا ہوسکتا ہے۔مقالے میں لکھا گیا ہے کہ یہ اس قابل فہم نتیجے سے مطابقت رکھتا ہے کہ مائیکرو آرگنزم جیسے جاندار خلا سے زمین پر ممکنہ طور پر چھوٹے اسٹرائیڈز کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں۔لیکن اگر اس نظریے کو درست مانا جائے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ٹارڈی گریڈز ’’چھوٹے پانی کے ریچھ‘‘ جو زمین پر سب سے اونچے پہاڑوں سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک ہر جگہ پر پائے جاتے ہیں کیا وہ بھی خلا سے آسکتے ہیں؟ٹارڈی گریڈز کئی دہائیوں تک بغیر خوراک اور پانی کے بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔مقالے میں کہا گیا ہے کہ آکتوپس کی جینیاتی تاریخ انتہائی متضاد اور مبہم ہے اور ایک ماورائے زمین اقدام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔دوسری جانب یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ کے طبی محقق کیتھ بیورسٹاک نے اس تحقیق کا کئی مربتہ جائزہ لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے شواہد مقالے کو قابل فہم بناتے ہیں۔

 
 
 

ای پیپر دی نیشن