دہشتگردوں سے لڑنا ہے یا بات ، پوری قوم سے ملکر فیصلہ کرنا ہو گا ، ارکان قومی اسمبلی 


 اسلام آباد (نامہ نگار)ارکان قومی اسمبلی نے پشاور میں پولیس لائنز میں ہو نے والء خود کش حملے کی شدید الفاظ مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ  دہشت گردوں سے لڑنا ہے یا ان کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہے اس حوالے سے پوری قوم کو ملکر ایک فیصلہ کرنا ہو گا، معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے مل بیٹھ کر آئندہ 10 سے 20 سال کیلئے قومی پالیسی تشکیل دیں ،اب مذمت کی نہیں مرمت کی ضرورت ہے ،قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کو دس سالوں میں 417 ارب روپے دیے گئے ،اربوں روپے ملنے کے باوجود پشاور محفوظ نہ بن سکا ،خیبرپختونخوا کے دونوں وزرائے  اعلیٰ بتائیں پیسے کہاں گئے ؟ ہم اداروں کیساتھ کھڑے ہیں ،ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں، محسن داوڑ موجودہ حکومت پر برس پڑے اور کہاہے کہ واقعہ پر بحث ہورہی ہے ، ایوان خالی ہے ،پشاور پریس کلب کے سامنے پولیس نے نامعلوم افراد کے حوالے سے احتجاج کیا ہے،اس طرح آخر ریاست کیسے چلے گی؟۔اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہاکہ اربوں روپے دینے کے باوجود پشاور محفوظ نہ بن سکا ۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا کے دونوں وزرائے اعلیٰ سے سوال ہے وہ پیسے کہاں گئے ۔ انہوںنے کہاکہ اگر یہ پیسے صحیح طریقے سے استعمال ہوتے تو یہ واقعہ نہ ہوتا ۔ انہوںنے کہاکہ دہشت گردوں کو گڈ اور بیڈ کا نام دیا گیا ،یہ غلط سوچ اور  ایک بہت بڑی غلطی تھی ۔انہوںنے کہاکہ دفاعی اداروں سے کہنا چاہتا ہوں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ،ایک ساتھ ان کا مقابلہ کرینگے اور ان کو شکست دیں گے ۔ راجہ ریاض نے کہاکہ پشاور سیف سٹی نہ بن سکا اور کیمرے نہ لگ سکے، یہاں کوئی اپوزیشن اور حکومت نہیں ہے،اب یکجہتی کی ضروت ہے ۔وقفے کے بعد ممبر قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا ہے کہ ہمیں بھول جانے کی عادت ہے، یہاں اس ایوان میں دہشت گردوں کو شہید کہہ رہا تھاکیا وہ آج بھی لاڈلا ہے ، ان کی خیبر پختونخوا میں حکومت تھی یہ لوگ ان کی پوری کابینہ ان کو بھتہ دیتی تھی،ہم پرالزام لگانے والے جو خود دہشت گردوں کو پالتے رہے،رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسیٰ زئی نے کہاکہ ریاستی ادارے سیاسی جماعتیں اور قوم تقسیم ہے ،کچھ لوگ کہتے ہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات تو کچھ کہتے لڑنا چاہیے ۔ ریاستی ادارے اور سیاستدان ایک پیج پر آجائیں کہ ان کے ساتھ لڑنا ہے یا  مذاکرات کرنے ہیں ، بیٹھ کر قومی پالیسی بنانا ہوگی ۔ محسن داوڈ نے کہاکہ جب تک افغانستان میں طالبان قابض رہیں گے صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ آپریشن کی بجائے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔  ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے۔ کے پی کے حکومت کو 417ارب روپے دیئے گئے وہ کہاں لگے ہیں کیا سابقہ حکومت کے وزراانہی عناصر کو چندہ نہیں دے رہے تھے،۔ وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ کچھ لوگوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے خطہ میں آگ گی، پڑوس میں گئی  دہشتگردی کو مدرسہ اور علما سے جوڑنا درست نہیں۔وزیرستان میں تین آپریشن ہوئے لیکن گنتی میں طالبان ہلاک ہوئے آ اگر وہاں آپریشن ہونا ہے تو پنجاب میں بھی آپریشن ہونا چاہیے ،اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ دہشت گرد نہ پنجابی ہے نہ پٹھان ہے،دہشت گردوں کا تعلق کسی علاقوں سے نہیں ہوتا، مولانا جمال الدین نے کہا کہ اپوچھا جائے کہ آپ کیوں ناکام ہوئے،جی ڈی اے کی رکن سائرہ بانو نے کہا کہ  اب مذمت نہیں بلکہ مرمت کی ضرورت ہے ۔قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹی برائے قومی ورثہ، ثقافت و تاریخ کی قائمہ کمیٹی کی تشکیل کی منظوری دیدی۔بعد ازاں سپیکر نے ایوان کی کارروائی جمعہ تین فروری دن گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کر دی ۔

ای پیپر دی نیشن