کالم بلقیس ریاض
نیلم بشیر کو جب ایوارڈ ملاتو دوست احباب نے اس کو مبارک دی۔ کافی دعوتیں اس کے اعزاز میں ہوئیں۔ میں نے بھی سلمیٰ اعوان اور نیلم بشیر کو اپنے گھر چائے ہر مدعو کیا۔ اس دعوت میں جتنے بھی لوگ آئے تھے۔ باری باری سب نے نیلم اور سلمیٰ اعوان کے بارے میں خرا ج تحسین پیش کیا اپنی رائے کا اظہار کیا۔اس کے کالم،ناول اور شاعری کو سراہا۔
نیلم بشیر کی نسوانیت اور حسن کردار ناول(طائوس فقط رنگ)کے کرداروں میں نمایاں ہے۔
دنیا میں کوئی کہانی نئی نہیں ہوتی۔ صرف لب و لہجہ اور اسلوب نیا ہوتا ہے۔ اچھی تحریر کیلئے واردات،تجربہ،مشاہدہ،مطالعہ،ادراک طرز احساس پھر زبا ن کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ نیلم ان تمام چیزوں کو اپنی قلم سے محفوظ کر چکی ہے۔
نیلم احمد بشیر صاحب کی بیٹی ہے۔ جو بڑے ہی دانشور کالمسٹ اور نثرگار تھے۔ اس نے اپنے باپ کی وراثت سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اللہ کے فضل سے اس مقام پر کھڑی ہے کہ تمام دنیائے ادب اس کو جانتی اور پڑھتی ہے۔
’’اس کا ناول ’طائوس فقط رنگ‘ اس میں جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا اس کو اِس انداز سے بیان کیا۔یوں معلوم ہونے لگا جیسے وہ حملہ میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ کیونکہ تیس سالوں سے میں بھی امریکہ اپنے بچوں کے پاس جاتی ہوں۔ نیویارک کے سارے مقامات کو کئی کئی بار دیکھ چکی ہوں اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر تو مین ہیٹن کی فلک بوس عمارتوں میں سے سب سے اونچی عمارت تھی ۔ کئی منزلوں پر مشتمل تھی۔ نیلم نیویارک کے بارے میں لکھتی ہے۔ نیویارک شہر کا ایک سحر ہے۔ کوئی بھی ایسانہیں جو نیویارک میں داخل ہو تو اس کی رونقوں اور خوبصورتیوں سے چکراکر نہ رہ جائے۔ اور اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو جائے‘‘۔ ایک لحاظ سے اس نے یہ بات سچ لکھی ہے۔
ورلڈٹریڈ سنٹر کا ذکر یوں کرتی ہے۔ ہیرو مراد کا دوست اسفندر جو ورلڈ سنٹر میں اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔اور اپنی محبوبہ سے باتیں کر تے کرتے اچانک اس نے گول گھومنے والی کرسی پر ایک زور سا چکر لیا اور بڑی سی شیشے کی ونڈو میں سے نیویارک کی سکائی لائن کو دیکھنے لگا۔ آسمان نیلا اور شفاف تھا۔ بادل کی ٹکڑی تک نظر نہ آتی تھی۔ سب کچھ نکھرا نکھرا تھا کہ اچانک اسے آسمان سے ایک کالا دھبہ اپنی طرف آتا دکھائی دیا اسفندر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہے۔ خدوخال نمایاںہونے شروع ہوئے تو دیکھا ایک بہت بڑا جہاز کھڑکی کی سمت چلا آرہا ہے۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ شاید جہاز راستے سے بھٹک گیا ہے لیکن یہ بلڈنگ کے قریب سے قریب کیوں آتا چلا آرہا ہے۔ وہ خاموشی سے دیکھتا چلا گیا۔
آفس کے اس فلور پر کچھ اور لوگ بھی جہاز کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر حیرانی سے بت بنے دیکھتے رہ گئے۔ اس سے پہلے وہ کچھ سوچتے یا کر سکتے۔ دھماکے کے ساتھ جہاز اس عمارت کا پیٹ چیرتا اس میں سما گیا۔
پورے 102منٹ بعد ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ٹاور نمبر ون دنیاکی تقریباََ سب سے اونچی عمارت زمین میں یوں دھنس گئی جیسے بھس کی بنی ہوئی تھی۔ اینٹ،سیمنٹ،سٹیل جیسی کوئی مظبوط چیز اس کے ڈھانچے میں لگائی ہی نہ تھی۔ عمارت کے گرتے ہی سب نے دیکھا مین ہیٹن کی گلیوں میں سفید بادل دندندتا پھر رہا تھا جس میں عمارتی کیمیکلز، میٹریل اور نہ جانے کیا کیاکچھ تھا۔ لوگوں کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ کئی تو اس گرد سے بے ہوش ہوئے جا رہے تھے۔ اس وقت صبح کے نو ہی بجے تھے مگر روشن دن ایک گہری رات کی مانند محسوس ہو رہا تھا۔نیچے کھڑے لوگوں نے دکھ سے دیکھا۔
نیلم نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا نقشہ کچھ ایسا بیان کیا تھا۔یوں لگنے لگا جیسے مین ہیٹن کے لوگوں کے قریب میں کھڑی تھی اور اس کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ نیلم صرف ناول نگار ہی نہیں بلکہ کالم نویس،شاعرہ اور سفر نامہ نگار بھی ہے۔
نیلم معاشرے کے بوسیدہ اور دقیا نوسی اقدار کی دشمن ہے ان قدروں کو ملیا میٹ کرنا ان کی تحریروں کا نصب العین ہے۔ و ہ اپنے افسانوں میں سچ کہتی اور لکھتی ہے۔ سچ کڑوا بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس سچ کی کرواہٹ کو کونین کی گولی کے طور پر قاری کے منہ اور حلق سے نہیں گزارنا چاہتی بلکہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ قاری کے دل و دماغ پر اس طریقے سے تازیانے لگاتی ہے کہ وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کہیں میں تو ایسا نہیں۔
نڈر قسم کی خاتون ہے۔ مثبت سوچ کی مالک ہے۔ معاشرے سے بالکل نہیں ڈرتی اگر میں نے کھلا سچ لکھا تو لوگ کیا کہیں گے۔ وہ لوگوں کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ جو دل میں آتا ہے وہ اس کو بے باک انداز سے لکھ دیتی ہے۔ اسے کہانی لکھنے کا آرٹ جوآتا ہے۔ اورایک لحاظ اس کا اپنا اور نیا اسلوب بہت لوگوں سے مختلف نظر آتا ہے۔
ہیرو مراد کی ماں سجیلہ کاکردار بالکل پاکستانی عورتوں سے مختلف ہے۔ سجیلہ (ساس)بڑی دھیمی اور سلجھی ہوئی خاتون کا کردار ہے۔ شمع(بہو)کی سچی باتیں سن کر بھی اس کو کچھ نہیں کہتی مگر دل ہی میں کڑتی ہے لیکن ہر اس کی بات در گزرکر دیتی ہے۔ اس لئے کیونکہ وہ امریکہ میں رہ رہی ہے۔اور امریکہ کی عورت تھی۔
نیلم نے اپنی کتاب میں محبت کے بارے میں بڑے خوبصورت الفاظ استعمال کئے ہیں۔
’’محبت کسی نہ کسی روپ میں ہمارے گرد موجود رہتی ہے۔ بس اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی چہرہ بھی وہ نہیں رہتے۔ جب تک انسان زندہ ہے۔ اپنے حصے کی محبت پانے کی امید رکھنی چاہیے‘‘۔
’’مسز جین اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھیں۔ یہ اس شہر کی بات نہیں ہے۔ یہ ملک ایسا ہے۔ بے چین،بے سکون،بے صبرا ہر کوئی منزلیں تلاش کرتا رہتا ہے۔ سکون کی بستیاں ڈھونڈتا ہے۔حالانکہ سکون انسان کے اندر غار میں چھپا خوابدیدہ جانور ہے۔ جسے سردیوں کے بعد باہر نکلنے میں گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔
غرض کہ اپنے عمدہ تحریر کی اور ان تھک محنت کی وجہ سے نیلم نے ایوارڈ حاصل کیا۔ مبارکباد کی مستحق ہے۔ نہ صرف مجھے بلکہ پاکستان کی تمام عورتوں کیلئے باعث فخر ہے۔ اللہ کرے اس کا زور قلم اور بھی ہو زیادہ۔
نیلم بشیر کا ناول’’طائوس فقط رنگ‘‘
Feb 02, 2023