لقمان شیخ
گزشتہ روز پاکستان میں ایک انتہائی مضبوط حفاظتی کمپاؤنڈ میں نمازیوں سے بھری مسجد کے اندر ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس میں 27 پولیس اہلکاروں سمیت 59 افراد شہید ہو گئے، پولیس کے مطابق حملہ آور ’’ریڈ زون‘‘ کے احاطے میں داخل ہونے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے زیر انتظام کئی رکاوٹوں سے گزرا جس میں شمال مغربی شہر پشاور میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کے دفاتر واقع ہیں۔ یہ ایک خودکش دھماکہ تھا پشاور پولیس کے سربراہ اعجاز خان کا کہنا ہے کہ مسجد کا ہال اس وقت 400 نمازیوں سے بھرا ہوا تھا اور 170 زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک تھی۔ مقامی طالبان جنہیں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے ذمہ داری سے انکار کیا ہے۔ پشاور میں مارچ 2022ء کے بعد یہ بدترین حملہ تھا جب جمعہ کی نماز کے دوران شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد میں اسلامک اسٹیٹ کے خودکش بم دھماکے میں کم از کم 58 افراد ہلاک ہوئے۔ پشاور، جو پاکستان کے قبائلی اضلاع کے کنارے پر طالبان کے زیرِاقتدار افغانستان سے متصل ہے، اکثر اسلام پسند عسکریت پسند گروپوں بشمول اسلامک اسٹیٹ اور پاکستانی طالبان کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں کہا، ’’تحریک طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ یہ بم دھماکا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایک مشن کے اسلام آباد آنے سے ایک روز قبل ہوا ہے جس میں جنوبی ایشیائی ملک کی معیشت کے لیے فنڈز کھولنے پر بات چیت شروع کی گئی ہے، جو ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا کو بتایا کہ بمبار نمازیوں کی پہلی صف میں کھڑا تھا۔ ’’جیسے ہی امام نے کہا ’اللہ اکبر‘ ایک بڑا دھماکا ہوا،‘‘ دھماکے سے مسجد کی بالائی منزل نیچے آگئی، درجنوں نمازی ملبے میں دب گئے۔ ٹی وی میں دکھایا گیا ہے کہ امدادی کارکن منہدم ہونے والی چھت کو کاٹتے ہوئے نیچے کی طرف جاتے ہیں اور ملبے میں پھنسے متاثرین کی طرف جاتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا، ’’یہ پاکستان پر حملے سے کم نہیں ہے۔ قوم غم کے گہرے احساس سے مغلوب ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ہماری قومی سلامتی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔‘‘
وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے کارکنوںسے ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے کی اپیل کی، کہا کہ نماز کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے فوج کے تمام کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر پائیدار امن کے حصول تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر توجہ مرکوز رکھیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرقیادت 255ویں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے شرکاء کو موجودہ اور ابھرتے ہوئے خطرات، غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کمشیر کی صورتحال اور ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے مابین گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں کئے جانے والے آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ فورم نے پشاور پولیس لائن دھماکے کے شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پاکستان میں ہر سال دھماکے سے سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے مختلف آپرشنز کر کے کسی حد تک تو دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے مگر ابھی بھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ پہلے تو بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا تھا مگر اب افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کیسے ہو رہی ہے اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے کیا ابھی بھی بھارت ہی ہے یا اور بھی بیرونی طاقتیں اس میں ملوث ہیں۔ ہماری سیکورٹی فورسز کو ان باتوں کے ثبوت تلاش کرنا ہوں گے۔ نیشنل ایکشن پلان پر کس قدر عملدرآمد ہو ریا ہے اس پر کمیٹی تشکیل دینا چاہیے۔ جب تک ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت مختلف مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے۔ معاشی حالات بدتر ہیں۔ مہنگائی کا طوفان ہے اور دہشت گردی کے واقعات نے عوام کو غم زدہ کر دیا ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے آمین!