شخصیت پرستی کے کانٹے


بے نقاب …  اورنگ زیب اعوان ایڈووکیٹ 
ہندوستانی مسلمانوں نے  طویل عرصہ تک انگریز کی غلامی میں زندگی بسر کی. اس دوران وہ حصول آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے. بالآخر 1947 میں انہیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی. اور دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ایک آزاد مملکت معرض وجود میں آئی. اس پر ہندوستان کے مسلمانوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی. وہ زمین کا ایک الگ حصہ حاصل کرنے پر سوچ رہے تھے. کہ وہ اب ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں. اب وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکے گے. اور اس آزاد مملکت کو اسلام کا گہوارہ بنایا جائے گا. ان کا یہ عزم ایک خیام خیالی ہی ثابت ہوا. عرصہ دراز تک غلامی میں زندگی بسر کرتے کرتے ان کی ذہنیت غلامانہ سوچ کی حامل ہو چکی تھی. اس لیے جسمانی طور پر تو آزاد ہو گئے. مگر ذہنی طور پر آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے. جس کا خمیازہ پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے. آزادی کے فوری بعد طاقتور لوگوں نے اس آزاد قوم کو اپنے زیر نگیں رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا. اور اپنی اس کاوش میں کامیاب ہو گئے. آزادی سے لیکر آج تک اس ملک پر چند خاندانوں کی حکمرانی ہے. اور قوم بھی ان  خاندانوں کی شخصیات کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے. یہی لوگ قوم کو اپنا غلام سمجھتے ہیں. بدقسمتی کہہ لے. کہ پڑھے لکھے افراد بھی اس مرض میں مبتلا ہیں. کوئی بھٹو خاندان، کوئی شریف خاندان تو کوئی عمران خان نیازی کے سحر میں مبتلا ہے. ان خاندانوں کے ذرائع آمدن میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے. مگر عام عوام کے لیے اپنا چولہا جلانا بھی مشکل ہو گیا ہے. مگر پھر بھی وہ اپنی اس غلامانہ روش سے پیچھے ہٹنے کو ہرگز تیار نہیں. کوئی انہیں روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بیوقوف بناتا ہے. کوئی ایشین ٹائیگر کے نام پر.تو کوئی تبدیلی اور ریاست مدینہ کے پر کشش نعرہ پر. یہ قوم اس قدر جہالت کی دلدل میں دھنس چکی ہے. کہ یہ ان لوگوں کا محاسبہ کرنے کی بجائے. ان کا دفاع کرنا اپنا اولین فرض تصور کرتی ہے. انہیں کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دیا. نہ ہی ملک ایشیائی ٹائیگر بنا اور نہ ریاست مدینہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا. ہر کوئی ان کے جذبات سے کھیلتا ہے. ان کا مقصد اقتدار کے ایوانوں سے چمٹے رہنا ہے. عوام سے انہیں کوئی سروکار نہیں. کسی کے بھی دور حکومت میں عوام نے پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھائی. قیام پاکستان سے لیکر آج تک عوام ذلیل و رسوا ہی ہو رہی ہے. اپنی اس حالت زار کا سہرا بھی عوام ہی کے سر سجتا ہے. کیونکہ وہ خود ہی ایسے لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرتی ہے. اور ان کی غلامی کو اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کرتی ہے. بات یہی نہیں رکتی. اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے. کہ یہ خوشی خوشی ان کی آیندہ نسلوں کی غلامی کے لیے بھی تیار بیٹھی ہے. اس نے اپنے گلے میں غلامی کا طوق ڈال رکھا ہے. جس کو اتارنے کے لیے یہ تیار نہیں. ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے. ملک کرپٹ ہونے کے دہانے پر ہے. مگر ہم لوگ اپنے اپنے لیڈر کی مداح سرائی میں مصروف عمل ہیں. کہ وہ آگیا تو ملک کی تقدیر بدل دے گا. جب وہ ناکام ہوتا ہے. تو دوسرے کے حامی کہتے ہیں. کہ ہمارا لیڈر آیا تو ملک کی قسمت چمک جائے گی. یہی امیدوں کا لامتناہی سلسلہ عرصہ دراز سے رواں دواں ہے. ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازتی ہے. غریب کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا. دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والوں سے کوئی پوچھے. کہ انہوں نے اس پر کس حد تک عمل درآمد کیا. آج ان کی پارٹی کے نامور سیاسی لوگ پکڑے جاتے ہیں. تو ملک کی عدالتیں رات کو بھی کھل جاتی ہے. مگر ایک عام پاکستانی پکڑا جائے. تو پانچ بجے کے بعد پولیس اسے تھانے سے لیکر عدالت نہیں جاتی. کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے. کل صبح ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا. مطلب غریب کے لیے کوئی قانون نہیں. قانون صرف اور صرف مالدار لوگوں کے لیے ہے. یہ انہیں کو انصاف فراہم کرتا ہے. دوسرے لفظوں میں ہماری عدلیہ کا کردار بھی طوائف کی طرح ہے. جسے جب کوئی زیادہ پیسہ دیتا ہے. وہ اسی وقت اس کی خوشی کے لیے میسر ہوتی ہے. کیا رات کیا دن وہ اس کی پروا نہیں کرتی. کاش ملک پاکستان کی عدالتیں دن رات غریب کے بھی کھولی رہے. تو اس ملک کی آدھی مشکلات حل ہو جائے. غریب پاکستانی کی زمین پر کوئی قبضہ کر لے. تو اسے یہ ثابت کرنے میں کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں . کہ وہ زمین کا ٹکڑا اس کی ذاتی ملکیت ہے. یہاں تو قتل کے مقدمات میں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا. عدلیہ جان بوجھ کر ان مقدمات کو طول دیتی ہے. بچیوں کی عصمت دری کے واقعات پر بھی عدلیہ کی یہی روش رہتی ہے. مقدمات کو طول دینے سے کیس کمزور ہو جاتا ہے. کیونکہ اکثر مقدمات میں مدعی مقدمہ غریب اور کمزور ہوتا ہے. غیر ضروری طوالت کی وجہ سے ملزمان اپنے حمایتوں کی مدد سے اس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. اور مجبوراً اسے عدالت سے اپنا کیس واپس لینا پڑتا ہے. ظاہر ہے. وہ کب تک اس ظالم معاشرے اور فرسودہ نظام سے لڑ سکتا ہے. عدلیہ کو فی الفور مقدمات میں عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے. کیس کی واپسی پر عدلیہ کی طرف سے بیان دیا جاتا ہے. کہ ہم لوگ تو انصاف کرنا چاہتے تھے. مگر مدعی مقدمہ ہی اینے بیان سے مکر گیا. تو حضور والا آپ کی خدمت میں عرض ہے. کہ اس میں اتنی سکت نہیں 
کہ وہ ظالم کا طویل عرصہ تک مقابلہ کرے. اس سلسلہ میں آپ کو ہی فوری انصاف کی روش اختیار کرنا ہوگی. اس ملک کی عام عوام کو بھی انسان سمجھ لے. موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے. یہ ملک ہی اشرافیہ کے لیے بنا تھا. عام عوام تو ان کی خدمت کے لیے محض لفظی طور پر آزاد ہوئی تھی. غلاموں کو حق نہیں پہنچتا. کہ وہ کسی سے اپنی حالت زار پر گلہ شکوہ کرے. گزشتہ دو روز میں ڈالر کی قدر میں چالیس روپے سے زائد اضافہ ہو چکا ہے. پیڑول  کی قیمت میں بھی پتیس روپے کے قریب اضافہ کر دیا گیا ہے. یہ عوام کی مشکلات کے حل کے لیے نہی. بلکہ اپنی عیاشیوں کی خاطر کیا جا رہا ہے. کیونکہ ان کے پاس اپنا علاج و معالجہ اور بیرون ملک سیرو تفریح کے لیے پیسے کم پڑ رہے ہیں. اس لیے ایسے اقدامات کی جا رہے ہیں. عوام کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان سے ایسے ظالمانہ اقدامات پر سوال کرنے کی جسارت کرے. شخصیت پرستی کی شکار قوموں کا یہی انجام ہوتا ہے. انگریز نے ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا تھا. جس کی بدولت غلام پیدا ہوتے تھے. موجودہ نظام تعلیم بھی اس کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے. افسوس لوگ ڈاکٹر، انجنئیر، وکیل، جج، دانش ور اور صحافی بن کر بھی شخصیت پرستی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے. شاید شخصیت پرستی کا عنصر ہمارے خون میں سرایت کر چکا ہے. جو نسل در نسل آگے منتقل ہوتا جا رہا ہے. شخصیت پرست انسان تو زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک لاش کی مانند ہوتا ہے. جو اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر سوال نہیں اٹھا سکتا. ایسے جینے سے تو موت بہتر ہے. اس لعنت سے جس دن قوم نے چھٹکارا حاصل کر لیا. اسی دن وہ ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گی. اور ان نام نہاد سیاسی لیڈروں اور خاندانوں سے بھی جان بخشی ہو جائے گی. ہمارے اہل علم کو اس سلسلہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے. میڈیا کو بھی اس ناسور کے خاتمہ کے لیے اپنا رول ادا کرنا ہوگا. وہ کسی کو بھی ہیرو بنا کر پیش کرنے سے گریز کرے. شخصیت پرستی ایک خاموش زہر قاتل ہے. جو انسان کو زندہ درگو کر دیتا ہے. اور اسیاحساس تک نہیں ہو پاتا. اس شخصیت پرستی کی لعنت کا قلع و قمع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے. 

ای پیپر دی نیشن