جناب ! نگرانِ اعلیٰ … چند گزارشات…!!!

آئینہ 
     محمد شعیب مرزا
پنجاب میں کئی ڈرامائی تبدیلیوں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے بعد چودھری پرویز الٰہی رخصت ہوئے اور محسن رضا نقوی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ مقرر ہو گئے۔ کچھ عرصہ قبل چودھری پرویز الٰہی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے نو آموز اور ناتجربہ کار بیٹے مونس الٰہی کی باتوں میں آکر پی ٹی آئی کی ڈوبتی کشتی کا سہارا نہ لیں بلکہ اپنے جہاندیدہ اور سمجھدار سیاست دان بھائی چودھری شجاعت حسین کے مشوروں پر عمل کریں اور اپنے اقتدار کو، سیاسی ساکھ کو بچائیں۔ اس کے لئے (ن) لیگ سے مفاہمت کی کوئی راہ نکالیں لیکن انہیں شاید ہمارا مخلصانہ مشورہ پسند نہیں آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چودھری پرویزالٰہی نے اپنے گزشتہ اور حالیہ دور اقتدار میں بہت سے اچھے کام کیے اور عوامی خدمت کے کئی ادارے قائم کیے تھے۔ وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی کے لوگ چاہتے تھے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تُم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اس حوالے سے ان کی گفتگو بھی لیک ہوئی ہے جس میں وہ عمران خان کے قریبی ساتھی خاص طور پر فواد چودھری کو بڑی ’’کھلی ڈلی‘‘ زبان میں عمران خان اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت کے دوران فرح گوگی اور چودھری پرویزالٰہی کے حالیہ دور حکومت میں مونس الٰہی نے دونوں ہاتھوں بلکہ پاؤں سے بھی تیزی سے مال سمیٹا جو آہستہ آہستہ منظر عام پر آتا جائے گا۔ کل چودھری پرویزالٰہی کو ایک اور جھٹکا لگا ہے جب ان کی طرف سے چودھری شجاعت حسین کو (ق) لیگ کی صدارت سے ہٹانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور چودھری شجاعت کو (ق) لیگ کی صدارت پر بحال کر دیا گیا ہے۔ یہ تو خیر پرانی باتیں ہیں بقول چودھری شجاعت ’’مٹی پاؤ‘‘ آئیے! آگے بڑھتے ہیں۔ 
معروف صحافی محسن رضا نقوی جن کی عملی جدوجہد اور صحافتی کیریئر کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے انہوں نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا کر اہم اقدامات کا اعلان کرنا شروع کر دیا ہے۔ حلف کے لئے وہ اپنی گاڑی پر گورنر ہاؤس آئے۔ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ بنتے ہی وزیراعلیٰ کے لئے قائم چار دفاتر کو ختم کردیا ہے کہ ایک وزیراعلیٰ کے لئے چار دفاتر کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ وزیراعلیٰ کا دفتر صرف دفتر ہی نہیں ہوتا وہاں بہت سا سٹاف، گاڑیاں ہوتی ہیں اور وسیع وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ ان کا یہ اعلان عمران خان کی طرح وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے اور گورنر ہاؤس کی دیواریں توڑنے جیسا نہیں ہے۔ محسن رضا نقوی سے قبل دو صحافی نجم سیٹھی اور ڈاکٹر حسن عسکری بھی نگران وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
محسن رضا نقوی نے نگران وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنے میڈیا ہاؤس کی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ گو یہ علامتی طور پر ہوتا ہے تاکہ غیر جانبداری برقرار رکھی جا سکے۔ لیکن ہمارا ان کو مشورہ ہے کہ میڈیا کے حوالے سے انہوں نے جو ترقی کرنی تھی کر لی۔ مزید وہ ایک دو چینلز کا اضافہ ہی کرسکتے ہیں لیکن سیاست کے میدان میں متحرک اور باصلاحیت افراد کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ آپ کی ’’میڈیا ریاست‘‘ کی نگرانی کیلئے کہنہ مشق صحافی اور آپ کے مخلص ساتھی نوید چودھری موجود ہیں۔ صحافتی ذمہ داریاں ان کے سپرد کریں اور پاکستان کے لئے کچھ کر کے دکھائیں جس طرح سی این این اور پاکستانی صحافت میں آ پ نے نئے نئے تجربات کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔
بطور نگران وزیراعلیٰ تین ماہ آپ کے لئے آزمائش کا عرصہ ہے۔ آپ نے اچھی اننگ کا آغاز کیا ہے۔ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تقرریوں کو کالعدم قرار دیا ہے اور ٹرانسفرز کی ہیں۔ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایات دی ہیں۔ شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینے اور مشکلات میں کمی کیلئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب خاص طور پر تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت اور استعمال کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور ڈرگ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
نگران وزیراعلیٰ کے اختیارات اور عہدہ عبوری نوعیت کا ہوتا ہے اور نگران حکومت کا کام غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کروانا ہوتا ہے لیکن محسن نقوی کو چاہئے کہ وہ صوبے میں ایسے اقدامات کی بنیادر کھیں جو مستقل نوعیت کے ہوں اور آنے والی حکومت ان کی تقلید پر مجبور ہو جائے۔ تین ماہ کے دوران پنجاب میں تعلیم کے معیار، منشیات کے خاتمے، علاج معالج کی بہتر سہولتوں کی فراہمی، چوری اور ڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام، سکولوں میں بزم ادب، لائبریری پیریڈ اور صبح کی اسمبلی میں اقبال کی ’’لب پہ آتی ہے دعا …‘‘ اور مطالعہ کتب کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ بچوں کے لئے شائع ہونے والے رسائل شدید مشکلات کا شکار ہیں اگر ملاقات کیلئے کچھ وقت دیا جائے تواس حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ اگر محسن نقوی نے ان تین ماہ میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تو قومی سیاست میں عوام ان کو خوش آمدید کہیں گے اور قومی ترقی میں وہ عمدہ کردار ادا کرسکیں گے اور تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیں گی ورنہ 35 پنکچر کا الزام لگانے والے تو موجود ہی ہیں…!!!
٭…٭…٭
 

ای پیپر دی نیشن