مملکت سعودی عرب تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن

Feb 02, 2023

ڈاکٹر سبیل اکرام

ڈاکٹر سبیل اکرام 
سعودی عرب کے ساتھ ہمارا دین اور ایمان کا رشتہ ہے اس لیے کہ سعودی عرب میں حرمین الشریفین واقع ہیں۔ یہ دو مقدس شہر ہمارے دل ہیں اور ہر مسلمان کے دل میں بستے ہیں۔ہر مسلمان کادل مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت اللہ کیلئے ہر وقت دھڑکتا اور مچلتا ہے۔وہاں جاکر ایمان بڑھتا اور روح کو سکون ملتا ہے۔ایک دفعہ جانے والا وہاں بار بار جانے کی آرزو دل میں رکھتا ہے۔ سرزمین حجاز ایمان کا مرکز ہے اور رسول مقبولﷺ کاجا ئے ولادت و جائے مدفن ہے۔وہاں بیت اللہ اور مسجد نبوی کے علاوہ بھی بے شمار مقدس مقامات ہیں۔ اس روحانی اور ایمانی تعلق کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ ہمیں محبت ہے۔سرزمین حرمین کے بارے میں آمدہ اچھی خبریں ہمارے دلوں کو شاد کرتی ہیں۔ ایسی خبریں پڑھ کر اور سن کر ہمارے دل خوشی ومسرت سے لبریز ہوجاتے ہیں۔
 سعودی عرب کے بارے میں ایک خوش کن خبر یہ ہے کہ یہ تیز رفتار ترقی کرنے والا دنیا کاایک اہم ملک بن چکا ہے۔یہ سب کچھ سعودی ولی عہداور وزیر اعظم محمد بن سلمان کی بیدار مغز قیادت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ محمد بن سلمان عصر حاضر کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ مملکت سعودی عرب کو تعمیر وترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے دور رس اقدامات کررہے ہیں۔وہ ایسا سعودی عرب چاہتے ہیں جو مستقبل کے چیلنجز سے عہدہ برا ہوسکے۔ اس سلسلہ میں ویژن 2030ء سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ویژن 2030 ء سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیرصدارت کابینہ کے ہونے والے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔ اس پلان کے تحت سعودی معیشت کو بتدریج تیل کے بجائے صنعت و تجارت اور دوسرے شعبوں پر استوار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ایسی منصوبہ بندی کہ جس میں تیل پر انحصار کم سے کم ہو۔
 اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب کے صحرا تیل کی صورت میں سونا اگلتے ہیں لیکن کب تلک؟ ایک وقت آتا ہے جب زیر زمین سیال اور معدنیات ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسا وقت آنے سے پہلے دانشمندی کا تقاضہ تھا کہ ملک کی تعمیر وترقی کیلئے تیل کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع بھی تلاش کیے جاتے۔یہی زندہ قوموں کا شیوہ اور شعار ہوتا ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھتی اور اختیار کرتی ہیں۔ سعودی عرب کے قیام کی 91سالہ تاریخ میں محمد بن سلمان پہلے حکمران ہیں جنھوں نے نہ صرف اس حقیقت کو سمجھا بلکہ اس سے عہدہ برا ہونے کیلئے منصوبہ بندی بھی کی ہے اور اب تیزی کے ساتھ ان منصوبہ جات پر عمل درآمد بھی جاری ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا موقف بہت واضح ہے وہ کہتے ہیں کہ جب سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں نے مملکت کی بنیاد رکھی تو اس میں تیل نہیں تھا۔ بغیر تیل کے انھوں نے مملکت قائم کو چلایا اور اس میں رہے۔اس لیے مملکت کے مستقبل کو محفوظ اور مضبوط بنانے کیلئے ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم تیل پر انحصار کم کریں اور کاروبار مملکت چلانے کیلئے دیگر ذارئع تلاش کریں۔ ان مقاصد کی تکمیل کی خاطر محمد بن سلمان انتھک محنت کررہے اور بے شمار اقدامات کررہے ہیں۔ وہ صحرائوں اور ریگستانوں پر مشتمل سعودی عرب کو صنعتی ، زراعتی ،سیاحتی اور سرسبز وشاداب ملک بنانا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اس کے زیادہ تر رقبہ پر ریت کے طوفان اٹھتے ہیں ، علاقے بنجر ہیں ، ریگستان ہیں اور بڑے بڑے صحرا ہیں۔زمین کے نیچے تیل ہے اور زمین کے اوپر ریت ہے۔ بس یہ ہے سعودی عرب کی کل معیشت۔ دوسری طرف دنیا بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے اب ریت اور تیل کے ساتھ زندگی کی بقا ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر ذارئع بھی تلاش کیے جائیں جیسا کہ زراعت اور صنعت ہے۔ سعودی عرب کو زرعی ، صنعتی اور سرسبزوشاداب ملک بنانا بہت محنت طلب کام ہے لیکن جن حالات میں شاہ عبدالعزیز نے مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی وہ بھی تو مشکل حالات تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے نہ صرف مملکت کی بنیاد رکھی بلکہ اسے مستحکم بھی کیا تھا۔ 
دنیا کو اس وقت جس بدترین تباہی کاسامنا ہے وہ ماحولیاتی آلودگی ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین، فضا، ہوا اور سمندروں سمیت ہر چیز متاثر ہورہی اور اپنی اصل شناخت وہیئت کھو رہی ہے۔ پانی جو کہ انسانی زندگی کیلئے بے حد ضروری ہے تیزی سے ناپید ہورہا ہے ان حالات کا مقابلہ صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہے کہ زمین کو ہریالی وشادابی سے بھر دیا جائے اس مقصد کی خاطرسعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن2030ء کے تحت ’گرین سعودی عرب‘ پراجیکٹ لانچ کیا ہے۔اس پلان کے تحت آئندہ چند برسوں کے دوران مملکت کے مختلف علاقوں میں 10 ارب درخت اگانے کی منصوبہ بندی ہے جس سے تقریباً 40 ہیکٹرز اراضی سرسبز ہو سکے گی، جس سے باغات اور ہریالی میں 12 گنا اضافہ ہو گا۔ ساحلی اور بحری ماحول کو محفوظ بنایا جائے گا۔ کاربن گیس کے اخراج میں 4 فیصد سے زائد کمی ہو گی۔سعودی عرب کے بنجر اور خشک علاقوں میں درخت لگانے کا عمل تیزی سے جاری ہے، ان علاقوں میں اب ہریالی کے دلفریب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔جنگلات کی فراوانی اور ہریالی سے وافر پانی دستیاب ہوگا اور پانی سے سعودی عرب کی مجموعی بجلی کا50فیصد حاصل کیا جاسکے گا۔یعنی تیل کی بجائے پانی کے ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ اسی طرح مملکت میں زراعت کا فروغ بھی سعودی ویژن 2030 ء کا حصہ ہے جس کے تحت ملک بھر میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل زرعی فارمز قائم کیے جارہے ہیں۔ان فارمز کی تکمیل کے بعد نہ صرف سعودی عرب زراعت میں خود کفیل ہوگا بلکہ دنیا کو بھی غذائی اجناس درآمد کرسکے گا۔ 
ویژن2030ء کے تحت سعودی عرب کے 12شہروں کو تعمیر وترقی کیلئے فوکس کیا گیاہے جس کیلئے ’سعودی ڈائون ٹائون‘ کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دے دی گئی ہے۔ یہ کمپنی مدینہ منورہ، الخبر، الاحساء بریدہ، نجران، جیزان،حائل، الباحہ،عرعر، طائف، دومۃالجندل اور تبوک میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے اور سرمایہ کاروں کے ساتھ تزویراتی شراکت داری قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس کے تحت سیاحت اور ہاؤسنگ سمیت اہم اقتصادی شعبوں میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ یہ جدید سعودی عرب کے مستقبل کی مختصر سی جھلکیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب تیزی کے ساتھ تعمیر وترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ بچے ، جوان بوڑھے ، مرد وخواتین شبانہ روز محنت کررہے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ بھی مملکت سعودی عرب کے تجربات سے فائدہ اٹھائے تاکہ ہمارا ملک مسائل ومصائب کی گرداب سے نکل کر تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

مزیدخبریں