برطانوی حکومت کے ایک کنزریٹو تھنک ٹینک کی جانب سے کئے گئے حالیہ اس انکشاف کے بعد کہ برطانیہ کا سینکڑوں برس قدیم مگر غیرمعمولی ویلفیئر سسٹم جس کی مثالیں دنیا کے بیشتر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی دی جاتی ہیں‘ شہریوں کی اس طرح اب مدد اور حمایت نہیں کر پا رہا جو اس فلاحی مملکت کا طرۂ امتیاز تھا۔ مختلف معاشی اور اقتصادی حلقوں کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس نظام کے تحت عوام کی مدد اور حمایت نہ ہونے کی یوں تو متعدد وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ اس سسٹم میں پایا گیا مالی شگاف‘ معیشت میں جاری عدم استحکام‘ گزشتہ پانچ برس سے پھیلی کووڈ۔19 وائرس کے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات‘ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی اور 1948ء سے قائم نیشنل ہیلتھ سسٹم میں متعارف کروائی جانیوالی تبدیلیوں سے محض صحت‘ روزگار‘ تعلیم اور مالیاتی نظام ہی درہم برہم نہیں ہوا‘ مجموعی طور پر این ایچ ایس پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
فلاحی مملکت کے حوالے سے برطانوی شہریوں کو حاصل وہ موسمیاتی طبی سہولتیں جو مخصوص بچوں سمیت مختلف نوعیت کے مریضوں کو پہلے مفت دی جاتی تھیں‘ اب تقریباً ختم کر دی گئی ہیں تاہم عمر رسیدہ اور معذور مریضوں کیلئے مفت ادویات کی سہولتیں متاثر نہیں ہوئیں۔ اسی طرح مریضوں کو اب اپنے جنرل پریکٹشنرز سے فیس ٹو فیس ملاقات کی پہلی سی آزادی کو اب طویل انتظار کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس سے ہر عمر کا مریض شدید پریشانی سے دوچار ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق این ایچ ایس کے اس بحران کی ایک وجہ بلاشبہ جی پی ڈاکٹروں کی کمی اور سرجریوں میں روزافزوں مریضوں کا بڑھتا دبائو ہے تاہم صحت کے متاثرہ اس نظام کی ایک بنیادی وجہ برطانیہ کا بریگزٹ سے وہ انخلا بھی ہے جسکے اثرات مختلف شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بریگزٹ کے بارے میں برطانیہ کے بیشتر افراد کو آج بھی پوری طرح معلومات حاصل نہیں۔ یاد رہے برطانیہ نے 31 جنوری 2020ء کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی تھی‘ اس وقت کی برطانوی حکومت نے یہ اقدام جون 2016ء میں بریگزٹ (یعنی برطانیہ کے انخلاء کیلئے فیصلہ) کے حق میں ہونیوالے برطانوی ریفرنڈم کے بعد اٹھایا تھا اور یوں یورپی یونین اتحاد کے تحت جاری برطانوی منصوبوں جن میں تعلیم‘ طبی تحقیق اور صحت کے متعدد شعبے شامل ہیں۔ مالی اور افرادی قوت میں کمی کا شکار ہوئے اور یہ سلسلہ تاہنوز سنبھل نہیں پایا۔
جہاں تک عوامی فنڈز سے حکومت کے زیرانتظام چلنے والے این ایچ ایس کے مالی استحکام کا معاملہ ہے تو 2020ء میں اس سسٹم کو اس قدر شدید دھچکا لگا کہ این ایچ ایس کو 3 اعشاریہ 4 بلین پونڈ قرض حاصل کرنا پڑا مگر گزشتہ برس 90 اعشاریہ 3 بلین بجٹ کے باوجود قومی صحت کے اس ادارے کو بریگزٹ‘ کووڈ اور ہسپتالوں میں افرادی قوت میں کمی ایسے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی بناء پر جی پی، سرجنز اور ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبے شدید دبائو اور مالی بحران کا شکار ہیں۔
مقامی جنرل پریکٹشنرز اور سرجنز کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو معمولی سرجری کیلئے بھی اب اضافی انتظار کے مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بیشتر A+E ڈیپارٹمنٹس مریضوں سے کھچا کھچ بھرے نظر آتے ہیں۔ لندن کے زیادہ تر این ایچ ایس ہسپتالوں میں ہنگامی بنیادوں پر جانیوالے مریضوں کو جن میں چھوٹی عمر کے بچے‘ عورتیں‘ نوجوان اور معمر افراد شامل ہیں‘ ایمرجنسی کنسلٹنٹ سے چیک اپ کیلئے پانچ سے آٹھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس طویل انتظار کی بنیادی وجہ متعلقہ ڈاکٹرز‘ عملے اور سرجنوں کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اپنی باری کے منتظر مریضوں کیلئے بعض اوقات یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں مریضوں کی اضافی تعداد کے پیش نظر مزید تاخیر کی اطلاع شامل ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق این ایچ ایس میں پیدا اس بحران سے مریضوں کے علاوہ ڈاکٹرز‘ نرسیں اور ایمبولینسز سٹاف بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس سے مریضوں کی اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں سب سے زیادہ اموات کا سبب بننے والے مریض Coronary یعنی دل کی بیماریوں کا شکار ہیں جن کے فوری علاج کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ دل کی بیماریوں کی وجہ سے یہاں ہر سال 74 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مذکورہ حالات کے پیش نظر برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے گواین ایچ ایس ویٹنگ لسٹ میں کمی کا وعدہ کیا ہے تاہم شہری اپنے جی پیز ڈاکٹروں سے جلد فیس ٹو فیس اپا ئنٹمنٹ حاصل کرنے اور ہسپتالوں میں آپریشنز کیلئے طویل انتظار کے خاتمہ کیلئے بدستور تشویش سے دوچار ہیں۔
دوسری جانب ہسپتال ایمبولینس سروسز اور نرسز‘ کم تنخواہ اور مریضوں کے بڑھتے دبائو کے پیش نظر پہلے ہی احتجاجی کال دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ نیشنل ریلوے‘ ٹیچرز‘ ایئرپورٹ بارڈر فورس اور پوسٹ آفس ورکرز گزشتہ ماہ سے بڑھتی مہنگائی اور انرجی بحران کیخلاف تنخواہیں بڑھانے کیلئے ہڑتالیں جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے مستقبل میں یہاں کے فلاحی سسٹم میں مزید مسائل پیدا ہونے کی پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں۔