پاکستان میں اس وقت معاشی صورتحال شدید بگاڑ کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں تقریباً دس ماہ پہلے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرا کر ان دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھیں کہ وہ معاشی مسائل پر قابو پا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گی لیکن دس مہینے میں مسائل بے قابو اور ان کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں بھی بڑھ گئیں۔ حکمران اتحاد نے پہلے مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا تھا اور پھر تقریباً پانچ ماہ بعد یہ ذمہ داری اسحاق ڈار کے حوالے کردی گئی۔ ڈار صاحب نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے خوشنما نعروں کے ساتھ حلف تو اٹھا لیا لیکن قدم ایسا کوئی نہیں اٹھا پائے جس سے ان کے دعوؤں کی تائید ہوسکتی۔ نتیجے کے طور پر جب مہنگائی بڑھنا شروع ہوئی تو انھوں نے اپنی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے عمران خان کو ساری خرابی کے لیے ذمہ دار قرار دیا اور ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے عوام کو بتایا کہ سابق وزیراعظم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایسی شرائط پر معاہدہ کرلیا کہ اب ہم بے بس ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست سہی کہ جولائی 2019ء میں آئی ایم ایف سے چھے ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج یا Extended Fund Facility لینے کے لیے پاکستان نے جو معاہدہ کیا اس کی شرائط یقینا سخت تھیں لیکن اگر ملک کی معاشی حالت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس سب کا الزام صرف عمران خان یا ان کی حکومت پر ڈالنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ گزشتہ چونسٹھ برس کے دوران، یعنی دسمبر 1958 ء سے اب تک، پاکستان بائیس مرتبہ آئی ایم ایف سے مالی مدد حاصل کرچکا ہے۔ عمران خان کی حکومت اگست 2018ء سے اپریل 2022ء تک کو محیط تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے چھے دہائیاں پہلے سے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اس تعلق کا آغاز کردیا تھا جس نے آج ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ شاید یہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ اس تعلق نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ہم نے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے ایسے اقدامات نہیں کیے جن کی مدد سے ہم آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کے قابل ہو جاتے۔
آئی ایم ایف سے گلو خلاصی کی ایک صورت یہ ہوسکتی تھی کہ ہم ایسی پالیسیاں بناتے جن کی مدد سے ملک میں صنعتوں کو فروغ ملتا اور معیشت مضبوط ہوتی تاکہ ہمیں کسی بیرونی قرضے یا امداد کی حاجت ہی محسوس نہ ہوتی لیکن ہم نے کیا اس کے الٹ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ ہم چاہے تسلیم نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات و سہولیات بھی پاکستان کے معاشی مسائل بڑی اور اہم وجوہ میں شامل ہیں۔ ہم قرض یا امداد کی صورت میں جو رقم باہر سے وصول کرتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ تو ہم نے ان مراعات و سہولیات پر خرچ کردینا ہوتا ہے۔ یہ بات کوئی اور نہیں اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این ڈی پی کہہ رہا ہے کہ پاکستان ہر سال ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی رقم اشرافیہ کو مراعات و سہولیات دینے پر صرف کرتا ہے۔ اب اس بات کو یوں دیکھیں کہ ایک طرف ہم ایک ایک دو دو ارب ڈالر کے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے منت سماجت کررہے ہیں اور دوسری جانب ساڑھے سترہ ارب ڈالر اللے تللوں پر خرچ ہورہے ہیں۔
کورونا وبا کے عروج کے دنوں میں پاکستان کو مزید ایک موقع ملا تھا کہ وہ اپنی معیشت کو سیدھی پٹڑی پر ڈال لے لیکن ہم نے اس موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش میں سخت تالا بندی یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتیں اور کارخانے بند تھے، لہٰذا یورپ اور امریکا سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو آرڈرز ملنے لگے کیونکہ ہم نے مکمل تالا بندی نہیں کی تھی بلکہ سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا تھا۔ اس دوران ہم نے ٹیکسٹائل مصنوعات خوب برآمد کیں اور یورپ اور امریکا کی منڈی میں اپنی مثبت ساکھ بھی بنائی لیکن جیسے ہی وبا قابو میں آئی تو بھارت اور بنگلہ دیش میں تالا بندی ختم ہوگئی۔ جب وہاں صنعتوں اور کارخانوں نے کام شروع کیا تو انھوں نے یورپ اور امریکا میں جن نرخوں پر مال دینا شروع کیا ہمارے لیے ان قیمتوں پر اشیاء بیچنا ممکن نہیں تھا۔ پھر ہمارے ہاں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے صنعتوں اور کارخانوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں انھوں نے بھی زور پکڑا۔ اس سب کی وجہ سے ہم ایک بار پھر پیچھے آگئے۔
اب صورتحال مزید بگڑ چکی ہے کیونکہ ہمارے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر اتنے نہیں ہیں کہ ہم صنعتوں اور کارخانوں کو بیرونِ ملک سے خام مال منگوا کر دے سکیں۔ کئی بڑی بڑی کمپنیاں اپنے پیداواری یونٹس بند کرچکی ہیں۔ بہت سی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو نوٹس دیدیے ہیں کہ اگر اتنی مدت میں کام کا سلسلہ بحال نہ ہوا تو آپ خود کو فارغ سمجھیں۔ افراطِ زر کے ساتھ لوگوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں جو اضافہ ہوا اس پر قابو پانا حکمران اتحاد کے بس کی بات تو ہرگز دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں، حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کے تحت پٹرولیم مصنوعات سمیت مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کردے، لہٰذا وہ کردیا گیا ہے۔ اب منی بجٹ کی بھی شنید ہے جس سے مہنگائی کے طوفان کا ایک نیا ریلا آئے گا۔ اس سب کی وجہ سے لگ تو ایسا ہی رہا ہے کہ عوام آئندہ عام انتخابات میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں پر اعتماد نہیں کریں گے۔
٭…٭…٭