غریب کا خیال،سستی خوراک

دنیا بھر میں اس وقت مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے جس کے باعث بے روزگاری اور معاشی بدحالی نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ برطانیہ میں ہی قلیل مدت میں کئی حکومتیں صرف اس وجہ سے تبدیل ہوچکی ہیں کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور عام شہریوں کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ برطانیہ کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن وہاں کے عوام بھی مہنگائی کی شکایت کر رہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت میں خودبخود اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر اسی نسبت  سے معاوضے و تنخواہوں میں اضافہ ممکن نہ ہو تو معاشی مشکلات بڑھتی ہیں۔ عالمی طور پر مہنگائی کی لہر نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے اور یہاں پر اب تک اقتدار میں رہنے والے طبقے نے غریب کا کوئی خیال نہیں کیا اور یہ شکایت ہر دور میں عام رہی ہے کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اور عوام کی مشکلات کے خاتمے کیلئے حکومت پرعزم ہے لیکن غریب آدمی کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بدتر ہوتی چلی گئی اور آج ایک بار پھر غریب کو پیٹرولیم مصنوعات میں زبردست اضافے کے بعد مہنگائی کی نئی لہر میں ہچکولے کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ اور ڈالر کے ریٹ کے تناسب سے طے ہوتی ہیں اور یہ ہونی بھی چاہئیں کیونکہ پاکستان قرضوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ملک ہے اور کسی بھی صورت میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی نہیں دی جاسکتی لیکن الحمدﷲ پاکستان ایک زرعی ملک بھی ہے اور خوراک میں خودکفالت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اکتوبر 1999ء سے قبل بھی پاکستان میں خوراک کی قلت اور خوراک کی قیمتوں میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوتا رہتا تھا اور گندم کی قلت کو پورا کرنے کیلئے ترکی سے ایسی گندم لائی گئی تھی جو وہاں کے جانوروں کو بھی نہیں کھلائی جاسکتی تھی۔ ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے تاکہ گندم کی بیرون ملک سے خریداری پر کمیشن لینے والے اسکی شپنگ‘ ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج سمیت ہر ہر مرحلے پر اپنی ذاتی جیب بھرنے کی منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں جب کسان احتجاج کر رہے تھے تو انہوں نے کسان کنونشن طلب کیا اور اسلام آباد میں کسان لیڈروں سے ان کے مطالبات پوچھے۔ کسان لیڈرز کے تمام مطالبات جنرل مشرف نے پورے کئے اور کپاس‘ گنا وگندم کی سرکاری قیمت کسانوں کے مطالبے کیمطابق مقرر کرنے کے ساتھ ٹیوب ویلوں کیلئے ماہانہ فلیٹ ریٹ پر بجلی کی فراہمی کا اعلان کیا۔ بیج‘ کھاد ‘ زرعی ادویات اور زرعی مشینری پر تمام ممکن حد تک کسانوں کو نہ صرف ریلیف دیا بلکہ آسان شرائط پر فراہمی کو یقینی بنایا۔
پھر تاریخ شاہد ہے کہ کسانوں نے بھی دن رات محنت کی اور جنرل مشرف سے کئے گئے وعدے پر عمل کیا کہ ہمارے مطالبات مانیں ہم پہاڑوں پر بھی گندم کاشت کرلیں گے اور کسانوں کی دن رات محنت سے پاکستان پہلی بار خوراک میں نہ صرف خودکفیل ہوا بلکہ پاکستان گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ وہی کسان‘ وہی زرعی رقبہ اور وہی ملک تھا لیکن قیادت کی مخلصی اور زراعت کو اولین ترجیح دیئے جانے سے ملک میں زرعی انقلاب برپا ہوا اور کسان خوشحال ہوا۔ کسان کی خوشحالی اور اطمینان سے پورے ملک کا فائدہ ہے اور ملک بھر میں خوراک کی وافر سستی فراہمی اسی طرح ہی ممکن ہے۔ دنیا بھر بے شک مہنگائی سے پریشان ہو لیکن اگر ہم نے کسان کو اس کا جائز حق اور زراعت کو تمام ممکن سہولتیں فراہم کرلیں تو کم از کم ملک خوراک کی قلت اور خوراک کی مہنگائی سے بچ سکتا ہے۔
 اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں خلوص نیت کے ساتھ غریب آدمی کو سستی خوراک کی فراہمی کے ون پوائنٹ ایجنڈے کی تکمیل پر اپنی پوری محنت و دیانت لگادیں تو چند ماہ میں ہی پاکستان خوراک میں خودکفالت اور مناسب ترین قیمت رکھنے والا ملک بن سکتا ہے۔
ہماری ملک کی آبادی 22کروڑ ہے جبکہ پڑوسی بھارت کی آبادی ایک ارب اور 40کروڑ ہے لیکن وہاں زراعت کو اولین ترجیح دیئے جانے سے آج بھارت خوراک میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ وہ خوراک برآمد بھی کرتا ہے ۔ وجہ صرف خلوص نیت کی ہے۔  پاکستان کی 65%سے زائد آبادی دیہات میں آباد ہے اور ان کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ اگر ہماری لیڈرشپ نے زراعت کو اولین ترجیح رکھ کر انقلابی فیصلے اور اقدامات کرلئے جس سے کسان پہلے کی طرح 24گھنٹے اپنی زمینوں پر محنت و مشقت کے لئے نکل کھڑا ہو تو ملک کی غریب عوام کو سستی وافر خوراک کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔غریب  آدمی کو دو وقت کی روٹی اس کی قوت   خرید کے مطابق فراہم کرنا ہی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔

ای پیپر دی نیشن