دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں نے نئے انتخابات کا ڈول تو ڈال دیا ہے۔ مگر مستقبل قریب میں عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ البتہ قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں کے لیے وقتاً فوقتاً اعلانات ہوتے رہیں گے، شیڈول آتے رہیں گے، الیکشن بھی کروائے جاتے رہیں گے۔ مگریہ انتخابات بے معنی اور بے نتیجہ اس لیے ہوں گے کہ نہ تو یہ حکومت کی تبدیلی کے لیے ہوں گے اور نہ ہی کسی بڑے سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے، گویا صرف قانونی و آئینی حجت پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے راہنما صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مقررہ وقت پر نہ کروانے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 6 کے لاگو کرنے کی بات بار بار دہرا رہے ہیں۔ آئین کی یہ شق آئین سے بغاوت اور سنگین غداری کے بارے میں ہے۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 5 ریاست سے وفاداری اور آئین کی تابعداری سے متعلق ہے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ آئین سے انحراف یا آئین کی خلاف ورزی کا تعلق آئین سے بغاوت یا سنگین غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔ آئین سے بغاوت یا سنگین غداری اس صورت ہوسکتی ہے اگر کوئی طاقت کے استعمال یا اس کے کسی اظہار یا کسی بھی دیگر غیر آئینی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے آئین کو ختم ، منسوخ ، یا معطل کردے تو اس پر بغاوت اور سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ آئین کا خاتمہ یا معطلی جیسے اقدام کو سپریم کورٹ اور کوئی دوسری عدالت درست قرار نہیں دے سکتی۔ اور پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ اس کی سزا تجویز کرے۔ پارلیمان کے سنگین غداری کی سزا کے لیے قانون مجریہ 1973ء کے مطابق آئین کے خاتمہ یا معطلی کی سزا موت اور عمر قید تجویز کی گئی ہے۔ گویا آئین کا مکمل خاتمہ یا معطلی ہی بغاوت اور سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، نہ کہ آئین کی کسی ایک شق کی تشریح و توجیح کرتے ہوئے کوئی اقدام اس زمرے میں آسکتا ہے۔ سن 2013ء میں جنرل پرویز مشرف پر اس شق کا اطلاق کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے ایما پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ آئین کی رو سے صرف وفاقی حکومت آئین سے بغاوت یا سنگین غداری کا مقدمہ درج کراسکتی ہے۔ کوئی عام شہری یا کوئی اعلی عدالت ازخود نوٹس یعنی سو موٹو اختیار کے تحت آئین سے بغاوت اور سنگین غداری کے مقدمہ کے اندراج کا نہیںکروا سکتے۔
حال ہی میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور ڈپٹی سپیکر پنجاب صوبائی اسمبلی دوست محمد مزاری کے کئے گئے فیصلوں کو سپریم کورٹ نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ختم کردیا تھا۔ اور ان فیصلوں کے نتیجہ میں دونوں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں تبدیل ہو گئیں، یعنی دونوں جگہ اپوزیشن نے حکومت بنالی، مگر آئین کی خلاف ورزی کے جرم میں کسی کو سزا نہیں ہوئی اور نہ کسی پر غداری کا مقدمہ بنا۔ اس لیے کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی جرم نہیں ہے۔ جون 2006ء میں حمدان بمقابلہ رمز فیلڈ مقدمہ میں گوانتانا موبے جزیرہ پر قید، اسامہ بن لادن کا ڈرائیور سلیم احمد حمدان امریکی صدر کے خلاف کیس جیت گیا کہ اسے سزا دینے کے لیے بنایا گیا فوجی کمیشن امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے صدر جارج بش کی طرف سے بنائے گئے فوجی کمیشن یعنی عدالت کو آئین کے خلاف قرا دیتے ہوئے ختم کردیا، مگر صدر جارج بش کو آئین کی خلاف ورزی کا مْجرم نہیں ٹھہرایا۔ انتظامیہ آئے دن آئین کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے، مگر آئین کی خلاف ورزی، آئین یا مْلک سے غداری نہیں ہوتی۔ یہ معمول کی بات ہوتی ہے۔ اعلی عدالت اس طرح کے غیر آئینی اقدام کو غلط قرار دے کر درستی کردیتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت سزا توہین عدالت سے متعلق ہے نہ کہ آئین سے بغاوت یا سنگین غداری سے متعلق۔
نوّے روز یا ساٹھ روز کے اندر اندر انتخابات ہر صورت کروانے کے بارے میں آئین کاآرٹیکل 254 اس بات کو تحفظ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا عمل یا اقدام جس کی آئین میں کوئی تاریخ یا وقت مقرر ہے، مگر کسی بنا پر وہ فعل مقرر کردہ وقت یا تاریخ پر نہیں ہو پاتا، کسی اور وقت یا تاریخ پر ہوجاتا ہے تو آئین ایسے اقدام کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ گویا آئین کا یہ آرٹیکل اس امکان کو تسلیم کرتا ہے کہ کسی عمل کے لیے آئین میں درج کی گئی مدت یا وقت پر ہر صورت عمل درآمد کرنا ضروری نہیں۔ وہ ہی کام بعد کی کسی تاریخ یا وقت پر بھی ہوسکتا ہے، اور ایسا کرنا جائز اور درست ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کا انعقاد نگران حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن آئین کی منشاء یہ ہے کہ نگران حکومت قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر منعقد کروائے۔ اسی طرح برابری اور تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک سے متعلق آئین کا آرٹیکل 25، پاکستان کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی واضح ہدایت کرتا ہے۔ آئین کی اس شق کے مطابق شہریوں میں تفریق پیدا نہیں کی جاسکتی۔ لہذا قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نگران حکومتوں کی زیرنگرانی، ایک ساتھ اور ایک وقت پر منعقد ہونے چاہئیں۔
مجوزہ عام انتخابات اور دو صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا التوا نئی مردم شماری، بدتر معاشی حالات اور ملکی اندرونی سلامتی کو درپیش خطرات کی وجوہات کی بنا پر بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ سیاسی افراتفری اور مغائرت کے ان بدتر حالات میں جب سیاسی فریق آپس میں بات تک کرنے کے روادار نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے انتقام کے لیے بیتاب ہوئے جاتے ہیں، فوری انتخابات اس وسیع تر ہوتی ہوئی خلیج کو مزید گہرا کردیں گے۔ درجہ حرارت تھوڑا نیچے آنے دیں، سیاسی قوتوں کے درمیان انتخابی اصلاحات پر بات چیت شروع ہو، پھر باہمی اتفاق رائے سے آئندہ انتخابات کا شیڈول دیا جائے تو امکان ہے کہ اس عمل سے سیاسی استحکام آسکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ممکنہ انتخابات ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں، دونوں کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہونے والا نہیں۔ عمران خان کا اولین مقصد اگر قومی اسمبلی سے استعفے اور دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر فوری نئے انتخابات کے نتیجہ میں دوبارہ برسراقتدار آنا تھا، تو پھر اس میں کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی مدت مزید ایک سال تک بڑھانے کا نقصان پھر عمران خان کو ہی ہے۔ دونوں صوبوں میں حکومت کا الیکشن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔ حکومت صرف سپریم کورٹ کے حکم پر ہی الیکشن پر آمادہ ہوگی۔ آئین کے آرٹیکلز 224 25, اور 254 کو ملاکر پڑھیں تو سپریم کورٹ کے لیے صرف دو صوبوں میں الیکشن کے حق میں فیصلہ دینا آسان نہیں ہوگا۔ قرائن سے لگتا یہ ہی ہے کہ بات انتخابات کے التوا کی طرف جارہی ہے۔ لیکن جو بھی ہو وہ آئین اور مْلک کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ کسی ایک یا ایک سے زیادہ سیا سی جماعتوں کے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔ سب سے مقدم مْلک اور اس کا آئین ہے۔