وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
نوید قمر ان دنوں وفاقی وزیرتجارت ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی کے متحرک سینئر رہنمائوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی رہائشگاہ پر نوائے وقت کیلئے ہمیں تفصیلی خصوصی انٹرویو دیا۔ان دنوں جب ملک کے معاشی حالات اور تجارتی توازن کے بارے میں ہر شخص فکر مند ہے آئیے ان سے جانتے ہیں کہ ان کے پاس ملک و قوم کیلئے اچھی خبر کیا ہے۔
نوائے وقت: کہا جارہا ہے کہ انتخابات رواں سال ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، بلکہ اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ انتخابات اگلے سال ہوں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
نوید قمر: جو بھی شخص جمہوری سوچ رکھتا ہے وہ آئین سے تجاوز کرنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔یہ حکومت یا ہماری پارٹی اس قسم کی خواہش کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ آئین میںاسمبلی کی مدت 5 سال سے زیادہ نہیں ، سوائے اس کے کہ کوئی ایمرجنسی کی صورتحال ہو، اورانتہائی ناگزیر حالات ہوں تو پھر پارلیمنٹ الیکشن کی مدت میںتوسیع دے سکتی ہے۔موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست کو ختم ہونی ہے۔ اور اس کے 60 دن کے اندر الیکشن ہونے ہیں۔ 11،12 اور 13 اکتوبر جو بھی تاریخ ہو اس کے اندر الیکشن ہونے چاہئیں۔ حالات انتہائی کٹھن،دشوار،نازک ہوں تو پارلیمنٹ نیشنل اسمبلی کی مدت میں طول دے سکتی ہے۔لیکن میرا خیال نہیں کہ یہ کوئی اتنا اچھا آرٹیکل ہے جو سیاسی وجوہات کی وجہ سے استعمال ہونا چاہیے۔ الیکشن کو مقررہ وقت پر ہونا چاہیے۔ آئین میں ہر چیز متعین ہے۔ الیکشن کمیشن کیا کرتی ہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی صوابدید بھی ہے ۔
نوائے وقت: دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ان اسمبلیوں کے اور جنرل انتخابات الگ الگ تاریخ میں ہونے ہیں۔ کیا یہموجودہ معاشی صورتحال میںیہ بات ملک کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگی؟
نوید قمر: یہ پاکستان میں غیر معمولی صورتحال ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ وقت میں ہونے ہیں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کی مدت ابھی باقی ہے ۔ ظاہر ہے اس کے اپنے نقصانات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں مثالی استحکام کے لیے ضرورت ہے کہ وقت پر الیکشن ہوں۔ نہ اس سے ایک دن پہلے ہوں اور نہ اس کے ایک دن بعد۔اس وقت خرچہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جبکہ ہمارے ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ ہم اس قسم کی شاہ خرچیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے الیکشن کمیشن نے صرف پنجاب میں ہی انتخابات کے لیے 15 ارب کی ڈیمانڈ کی ہے۔
نوائے وقت: آپ نے کہا الگ الگ انتخابات کا سلسلہ ملکی معاشی حالت پر گراں گزرے گا، کیا سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش نہیں کرلینا چاہیے؟
نوید قمر: ظاہر ہے یہ چیزیں ہمیں سوچنی چاہئیں۔ جیسے ہم چیزوں کو انجینئر کرتے ہیں جس طرح سے ابھی پی ٹی آئی نے کیا کہ وہ چاہ رہے ہیں سسٹم کولیپس ہو تاکہ عمران خان دوبارہ سے وزیراعظم بن جائیں، ان چیزوں کے لیے پوری قوم کو دائو پر لگانا میرا خیال نہیں کہ یہ مناسب چیز ہے۔ آخر یہی ملک ہے جس کا اس نے وزیراعظم بننا ہے، اگر اس نے وزیراعظم بننا ہے تو اسی ملک کا بنے گا اگر ملک کو تباہ کردیا تو ان کے پلے کیا رہے گا؟۔ مائنڈ لیس ایکسرسائز نہیں ہونی چاہیے۔ ساری چیزوں کو ذہن میں رکھ کر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
نوائے وقت: پی ٹی آئی کے لوگوں کی گرفتاری کے حوالے سے افواہیں گردش میں ہیں، کہا جارہا ہے کہ فواد چودھری کی گرفتاری کے بعد مزید گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگا، کیا اس حوالے سے کہیں کوئی منصوبہ بندی ہوئی ہے؟
نوید قمر: نہ میرے ہاتھ میں ہے اور نہ میں نے گرفتار کرنا ہے، میں حکومت کا حصہ ہوں مجھ سے اس قسم کا کوئی پلان ڈسکس نہیں ہوا۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ ہے جو نیب کا شروع کیا ہوا ہے بلکہ اس سے بھی بہت وقت پہلے احتساب بیورو سیاسی لوگوں کے لیے ایک آزمائش تھا۔ یہ سلسلہ عمران خان کے دور میں عروج پر پہنچا تھا۔ یہ چیزیں میرٹ پر ہونی چاہئیں سیاسی نظر سے نہیں ہونی چاہئیں۔ کئی چیزیں ہیں جس میں عمران خان ڈیفالٹر ہیں، توشہ خانہ کا تو صرف نام آگیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی غلط کام ہوا ہے، اگر ہوا ہے، جیسے ان کو کوئی گفٹ ملے، اگر یہ کیس کسی قانون کی نظر میں وقعت رکھتا ہے تو پھر یہ سٹینڈ کرے گا، اور پھر یہ بتانا بھی چاہیے، اور ہر کسی کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کہ پہلے جیل میں ڈال دو اور پھر یہ سوچو کہ کیا کرنا ہے یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔اداروں کو صحیح معنوںمیں آزاد ہونا چاہیے، جو کہ آج تک نہیں ہیں، صحیح معنوں میں انڈیپنڈنٹ نہیں ،۔ اگریہ ادارے غیرسیاسی ہوگئے تو جس پر بھی ہاتھ ڈالیں گے وہ عمران خان ہو یا کوئی اور لوگ اس کو میرٹ پر دیکھیں گے۔
نوائے وقت: کراچی میں پیپلزپارٹی کی بڑی جیت عوام میں مقبول ہونے کا اشارہ کرتی ہے، عام انتخابات میں آپ پیپلزپارٹی کو کہاں دیکھتے ہیں؟
نوید قمر: میرے خیال سے پیپلزپارٹی عام انتخابات میں پہلے سے بہتر پرفارم کرے گی، کیونکہ پیپلزپارٹی نے اس جگہ فوکس کیا ہے جہاں وہ پہلے کمزور رہی، بہت سے مضبوط علاقے ہیں جہاں پیپلزپارٹی کو کوئی چیلنج ہی نہیں، مثال کے طور پر سندھ کو دیکھیں، سندھ اربن ایریاز میں بھی پیپلزپارٹی مقبول ترین جماعت ہے، پنجاب اور خاص طور پر سائوتھ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا سائز بڑھے گا، ایک زمانے میں ہم پورے پاکستان میں طاقت رکھتے تھے، اب ہم اس کو واپس حاصل کرنے جارہے ہیں۔ بلوچستان سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
نوائے وقت: کیا سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنا حکومتی ضرورت ہوتی ہے؟
نوید قمر: جمہوری سوچ رکھنے والا فرد ایسی کوئی ضرورت پورا کرنے کا سوچتا بھی نہیں ۔ سب نے دیکھا کہ سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کا سلسلہ عمران خان کے دور میں اپنی انتہا پر تھا۔ جب قومی اسمبلی کی ساری کی ساری فرسٹ لائن جیل میں تھی۔ کوئی جیل میں تھا کوئی سپیکر کے رحم وکرم پہ تھا،۔ کسی بھی حکومت کا اس طرح کا کوئی بھی پلان صحیح نہیں ہوسکتا ۔ ہماری جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے جس میں کسی سے انتقام نہیں لیا جاتا۔
نوائے وقت: تجارت کے فروغ کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں؟
نوید قمر: ہم بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پاکستان اور قازقستان کے تجارتی راہداری معاہدے پر دستخط کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ قازقستان پاکستانی کھیلوں کے سامان، فرنیچر اور سیاحت میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔