چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
قومی افق
خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں شہدا کی تعداد 101ہوگئی جبکہ 216افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔سانحہ پولیس لائنز پر پوری قوم غم میں ڈوبی ہو ئی ہے لیکن اس سانحے نے سیکورٹی کی صورتحال ملک و قوم کی قربا نیوں ،معاشی بحران اوروطن دشمنوں کے بارے میں بحث کودوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ہر شخص سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان کے دشمنوں اور دہشتگردوں کا مقابلہ ہمارے جذبہ اتحاد کیلئے ایک بڑی آزمائش ہے۔ دھماکے کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا فوری طور پشاور پہنچنا اور زخمیوں کی عیادت کر نا امن دشمنوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ پوری قوم مل کر ملکی امن و استحکام،کیلئے آگے بڑھتی رہے گی گی ۔
2014میں جب پاک فوج نے قبائلی اضلاع میں فوجی کارروائی کی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)سے منسلک بہت سے شدت پسند مارے گئے اور زیادہ تر سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے تھے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں بھی کارروائیاں کی گئی جن کے باعث پاکستان میں اس کالعدم جماعت کے سلیپنگ سیلز اور نیٹ ورک کمزور ہوا۔مگر بد قسمتی سے2021میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے افراد کو غیر مسلح کر کے پاکستان میں لانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس اقدام نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ پائوں جمانے کا موقع فراہم کیا۔ یہی پالیسی ملک میں حالیہ لہر میں شدت کی اہم وجہ بتائی جاتی ہے ،دہشتگردوں نے یہاں آ کر دوبارہ دہشتگرد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ٹی ٹی پی خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہے اور ایسی کارروائیاں افغانستان میں بیٹھ کر کی جا تی ہیں۔ اب وقت کی ایک بار پھر پکار ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت ملک میں شدت پسندی کے خلاف نرم گوشہ رکھنے والوں کی نشاندہی کرکے اس کو ختم کرے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کا وفد اس وقت پاکستان میں موجود ہے اور حکومت کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے ،آئی ایم ایف کے ساتھ کیا معاملات طے پاتے ہیں اس کی تفصیلات تو مذاکرات کے اختتام پر ہی سامنے آئیں گی لیکن اس کے اثرات سامنے آنا شرو ع ہو گئے ہیںمذاکرات کے پہلے روز حکومت نے مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی)کی قیمت میں 30فیصد اضافہ کردیا اور اب سے اگست تک کے لیے بجلی کے نرخ 6 روپے فی یونٹ بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پھر بھی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں دورہ کرنے والا وفد 20 سے 25 کھرب کے مالیاتی فرق کو مشکلات کے باوجودپورا کرنے کے لیے سخت اقدامات کیلئے بضدہے۔ اسحق ڈار اور خرم دستگیر کی سربراہی میں وزارت خزانہ اور توانائی سے ملاقاتوں میں مشن کے اراکین کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا کہ آپ کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔آئندہ چند روز کے دوران اخراجات میں کٹوتیوں اور آمدنی کے اقدامات پر تکنیکی بات چیت کی جائے گی۔دونوں فریقین مذاکرات کے جمعے تک جاری رہنے والے پہلے مرحلے میں تکنیکی سطح کا غور و خوص کریں گے جس کے بعد 9 فروری آئندہ ہفتے کے اختتام تک پالیسی کی سطح کے اہم مذاکرات ہوں گے۔گزشتہ سال سے زیر التوا سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے علاہ بنیادی ٹیرف میں اضافہ کر کے صارفین سے 2 کھرب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت فروری تا مارچ تک پہلی سہ ماہی کے دوران توانائی کی قیمت میں 3 روپے 21 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کرے گی جس کے بعد مارچ سے مئی کے عرصے میں 70 پیسے کا اضافہ جبکہ جون سے اگست تک کی سہ ماہی کے دوران ایک روپے 64 پیسے فی یونٹ بڑھائے جائیں گے، یوں اگست تک 80 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔علاوہ ازیں 90 ارب روپے موخر کردہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی ریکوری اور پاور ہولڈنگ کمپنیوں میں موجودہ قرضوں کے مارک اپ کے ذریعے وصول کیے جائیں گے۔
ٹیکس وصولی کے چیلنج، سود کی بھاری ادائیگیوں اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے اخراجات کی وجہ سے مالیاتی کھاتوں پر دبا ئوکو اجاگر کرتے ہوئے حکومت نے افراط زر کی شرح 26 فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے جو کہ 11.5 فیصد بجٹ ہدف سے دگنی ہے۔ وزارت خزانہ نے اپنی ماہانہ معاشی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک میں کہا کہ جنوری کے لیے سالانہ بنیاد پر کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) افراط زر 24 سے 26 فیصد کی حد میں رہنے کی پیش گوئی کی ہے،حالیہ سیاسی اور معاشی بے یقینی صورتحال افراط زر میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔اس سے قبل اس نے اس کا تخمینہ 21سے 23 فیصد تک لگایا تھا۔
ادھر اگر ملک کی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف فوری انتخابات کیلئے اصرار کر رہی ہے ۔ دوسری جانب ملک میں آئندہ انتخابات میں تاخیر اور موجودہ حکومت کی مدت میں توسیع کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں ،حکومتی سطح پر اگرچہ اس کی تردید کی جا رہی ہے لیکن وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ واضح طور پر بیان دے چکے ہیں کہ آئین پاکستان کے اندر حکومت کی توسیع کی گنجائش موجود ہے اور ماضی میں بھی ایسا کیا جا چکا ہے ،اس حوالے سے انہوں نے 70کی دہائی میں سیلاب کے سبب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات کو ملتوی کر نے کی مثالیں دی ہیں،تحریک انصاف فوری طور پر انتخابات چاہتی ہے۔،چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک دہشتگرد تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کر نے کا منصوبہ بنایا ہے ، ہماری حکومت ہٹائی گئی تو مجھے پتا چلا کہ مجھے قتل کرنے کی سازش کی گئی ہے اور میں نے ان چار لوگوں کے نام بتا کر ویڈیو بنا دی تھی ۔ اب پلان سی بنا ہے جس کے پیچھے آصف زرداری ہیں، جس نے کرپشن کا پیسہ ایک دہشت گرد تنظیم پر لگایا جس میں ایجنسی کے لوگ سہولت کار ہیں۔ عمران خان کے مطابق جیسے ہی میں ٹھیک ہوں گا تو الیکشن مہم کے لیے نکلوں گا مگر مجھے کچھ ہوا تو قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ اس میں کون ملوث ہیں۔ یہ الزمات شدید نوعیت کے ہیں ان کی تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ اس قسم کے ہیجان انگیز الزامات کا فائدہ اٹھا کر کوئی ملک دشمن بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے ان الزمات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے او پاکستان پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوا دیا۔عمران خان کو نوٹس سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھجوایا گیا ہے۔نوٹس میں عمران خان کو 14 دن میں غیر مشروط معافی مانگنے کا کہا گیا ہے۔نوٹس کے متن مطابق معافی نہ مانگنے کی صورت میں شہرت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیاجائے،آصف علی زرداری کی جانب سے 10 ارب روپے ہرجانہ کا نوٹس بھجوایا گیا ہے۔یہ تمام صورتحال بتاتی ہے کہ سیاسی کشیدگی کم ہو نے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے اور ملکی استحکام سیاسی استحکام سے جڑے ہیں اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیںہو گا تو ہمارے دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں گے،سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کریں اور ملک کے مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے نکالیں جسے عوامی پشت پناہی حاصل ہو گی ،الزام تراشیوں سے فائدہ تو کو ئی نہیں ہو گا لیکن اس کا ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔