بچپن میں آنکھ کھولی تو اِن اللہ کے بندے کو پنجگانا نماز و تہجد پڑھتے دیکھا۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتی ہوں تمام عمر میں نے اپنے والد کو نماز کا پابند پایا۔ نماز سے ان کا تعلق ایسا تھا جیسے جسم و جان کا ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی ہمیں نماز کی پابندی اور درود پاک پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ درود پاک پڑھنا ہمارے خاندان کا ایسا خزانہ ہے جو کہ دادا پر دادا سے منتقل ہوتا ہمارے نسلوں میں چلا آ رہا ہے الحمدللہ۔ چھوٹے ہوتے دیکھا کہ ایک شخص ہر روز جمعہ کے دن اپنے آپ کو عصر سے مغرب ایک کمرے میں بند کر کے نعتوں کے ماحول کے وجد میں درود پاک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ بڑے ہوئے تو دیکھا کہ یہ شخص نعتیں سنتے ساتھ ہی اشکبار ہو جاتا ہے۔آنسوں کی یہ وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ مزید بڑے ہوئے تو پتہ چلا، والد محترم سال ہا سال سے ایک ہی قرآن پاک کی جلد اور پنج سورہ روزانہ پڑھتے ہیں جس کی مسلسل پڑھائی کی وجہ سے انگلیوں کے نشان اس کی کاغذوں پہ نقش ہو چکے تھے۔ پھر ہم نے انہیں موذن بنتے دیکھا۔ جو کہ فجر کی نماز کے لیے امام کے پہنچنے سے بھی پہلے مسجد موجود ہوتے تھے۔ بغیر لاؤڈ سپیکر کے پوری کالونی کو اپنی اذان پہنچانا ان کا شوق تھا۔ زندگی گزارتے گزارتے اب ہم اپنے ابو جی کو غلام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طور سے جاننے لگے۔
والد محترم کا درود پاک پڑھنا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر پہ والہانہ آنسو بہانا اور دن رات اللہ کے ذکر نے ان کو ختمِ نبوت کے لیے چن لیا۔ اِن عاشقِ رسول کو پاکستان میں پہلا مصنف بنے کا اعزاز حاصل ہوا جس نے ختمِ نبوت پر مجید نظامی صاحب کی بے انتہا معاونت سے لکھا۔ ان دونوں ہستیوں نے مل کے بہت سا پریشر بھی برداشت کیا لیکن اپنا کام سات مہینے تک جاری رکھا۔ اسی دوران میری قسمت کا دروازہ کھلا اور اپنے والد محترم سے روحانی رشتے آغاز ہوا۔۔ ابو کی دعا اور درود پاک کی برکت سے ابو کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ختم نبوت کے لیے چن لیا گیا۔ ابو نے میری کمیونٹی کا نام خدامِ ختم نبوت رکھا۔ ہم مل کے باپ بیٹی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی خدمت میں لگ گئے۔ جہاں ان کی زندگی میں وجہ شہرت "ختم نبوت" قرار پا چکی تھی. پورے ملک میں ان کو پی ٹی وی نیوز کاسٹر اور کالم نگار کی جگہ "ختم نبوت کے مجاہد" سے پہچاننے جانے لگا۔ ابو کو ختم نبوت کی اس دلیری پہ مختلف اعزازات بھی حاصل ہوئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ابو کی شخصیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جھلکنا شروع ہو گئی۔ ابو کی دل کا اپریشن ہوا اور ان کا سینہ چاک کیا گیا۔ابو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شک الصدر کہ واقعے سے بے حد اطمینان حاصل کرتے تھے۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دفعہ سینہ مبارک چاک کیا گیا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آب زم زم سے دل مبارک دھویا تھا۔ ابو کی خوش قسمتی، اللہ سبحانہ و تعالی اپنی خاص رحمت ڈاکٹر طیب پاشا پہ کرے جنہوں نے میرے والد کا دل آب زمزم سے دورانِ آپریشن دھویا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے پہ اس واقعہ کی وجہ سے ایک چیر کا نشان تھا ویسے ہی والد صاحب کے سینے پہ چیر کا نشان ان کی رحلت تک رہا۔ جیسے سب دل کے اپریشن کے مریضوں کا ہوتا ہے۔
ابو کی چشم دید گواہ ہوں جب ان کو رات میں تکلیف اور درد ہوتا تھا تو نیند میں بھی ان کی زبان سے اللہ، اللہ ھو اور اللہ ھو کی آواز آتی تھی۔ وینٹیلیٹر سے ہٹنے کے بعد بھی پہلی چیز جو آپریشن کے بعد یاد تھی وہ نماز کا ادا کرنا تھا ، چاہے وہ اشاروں سے ہی پڑھنا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لیے ابو کے یہ معاملات تھے۔
لوگوں کی چھپ کر مدد کرنا کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے۔ بچوں پہ شفقت کرنا، مسجد میں وقت گزارنا، چرند پرند جانوروں پہ رحم کرنا اور ان کو کھانا دینا, قطع تعلقی نہ کرنا، ہمسایوں سے اچھا سلوک، ابو کی روزانہ کی خوراک میں شہد، کھجور، اجوا، انجیر وغیرہ شامل تھا۔ ان کی صبح ہی شہد کے ایک چمچ لیکر ہوتی تھی، عطر کا استعمال کرنا، جمعہ کے دن لازمی غسل لینا، مہمان نوازی، آبِ زم زم کے شیدائی، رات کے ذاکرین میں اپنا نام لکھوانا، مسواک کا شوق ، دوستوں ہمسایوں کو کھانے بھیجنے کا دستور، ان گنت لوگوں کی نوکریاں لگوانا، بزرگوں کی عزت کرنا، باوضو رہنا شامل تھا۔
ہمارے مہینے کے راشن میں ان چڑیوں کا باجرہ ایک لازمی چیز تھی۔ گھر کی مختلف جگہوں پہ پرندوں کے لیے پانی ہر وقت دستیاب رہتا۔
روزانہ صبح فجر کے بعد چڑیوں کو باجرے کا صدقہ اپنے گھر والوں بیٹیوں کے سسرال والوں, اور ہمسائے والوں کا صدقہ ڈالنا ایک معمول تھا۔
میں ابو سے پوچھتی تھی ابو اپ کو کون سی جگہ جانا پسند نہیں ہے تو کہتے تھے بازار کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بازار پسند نہیں تھا۔ میرا اور میرے والد صاحب کا رشتہ اب باپ بیٹی سے بدل کر روح اور عقیدت کا بن چکا تھا۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ایک دوسرے کو سبقت دلانے کی کوشش ہماری زندگی کا شیوہ بن گیا تھا۔ ابا جی کا مجھ سے ہر دفعہ مختلف حدیث کا پوچھنا کالم لکھتے وقت میری زندگی کی بہترین یادوں میں سے ایک ہے۔ ابا جی نے ایسے میری ریاضت کرائی کہ میری خوش قسمتی کہ وقت نے پلٹا کھایا اور پھر پچھلے سات سالوں سے والد کو میں فجر کے وقت روزانہ جگانا شروع ہو گئی۔ ابو کی محنت میرے اوپر رنگ لائی اور مجھے پھر مصنف بننا بھی وراثت میں مل گیا۔
ابو کے ہی نقش قدم پہ چل کے میری تحریر صرف اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر تک محدود ہے۔
میرے والد صاحب کی پسندیدہ عبادت نوافل پڑھنا تھی۔ شکرانے کی نفل تو ہر چھوٹے بڑے کام کے کرنے سے پہلے اور اس کے ہو جانے کے بعد ادا کرتے تھے۔ ابو کے جسم کی پہچان ان سے زیادہ مجھے تھی۔۔ کہ میں ان کی نظروں اور ان کے انداز سے پہچان جاتی تھی کہ ان کو کیا تکلیف ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنے والد صاحب کو اللہ سبحانہ و تعالی سے کوئی ایک شکوہ بھی کرتے نہیں دیکھا۔ اللہ سبحانہ و تعالی سے نا امیدی، شکوہ شکایت ان کی ڈکشنری میں تھا ہی نہیں۔
اللہ کے اس جسمانی امتحان میں بھی اس بندہِ خدا کے منہ سے ایک لفظ شکوے کا کبھی کسی نے نہیں سنا۔ آہستہ آہستہ ابو کا عشق وجدان کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ نعتوں اور قوالیوں میں جھومنے کی بے اختیاری تھی۔
میں نے جب سیرت لکھنا شروع کی میں نے اپنے والد محترم کو کہا کہ یہ میں آپ کے نام کتاب کروں گی۔ ابا جی بہت خوش ہوئے۔ لیکن کتاب لکھنے کے بعد میں نے ان کو کہا کہ یہ کتاب کسی کے نام نہیں ہو سکتی۔ یہ تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ہے تو آقا کے نام سے پہلے اس کے غلام کا نام کیسے آ سکتا ہے؟ جس پہ ابو راضی ہوئے لیکن اس بات کی خوشی وہ محسوس کر چکے تھے۔
ابو کا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عشق کا راز میرے سامنے بالکل ایک کھلی کتاب کی طرح تھا۔ ہر وقت ایل ای ڈی پہ وہ مسجد نبوی براہ راست دیکھتے تھے۔ اور جیسے ہی سبز گنبد ان کو نظر آتا تو میرے والد صاحب میری موجودگی میں آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سلوٹ (سلام) کرتے تھے۔ اپنے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پہ اپنے ہونٹوں اور آنکھوں کا چومنا محبت کی سرشاری کا اعلان کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا، اہل بیت، دین اولیاء کرام ان سب سے خاص محبت و عقیدت تھی۔ زندگی کے اس حصے میں ابو نے فرقہ ورانیت سے مکمل منہ موڑ لیا تھا اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہتے تھے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی فرقہ نہیں بتایا تو میں بھی صرف مسلمان ہوں۔
اس دنیا سے جانے سے پہلے ابو نے اپنی عبادت کی انتہا کر دی تھی، راتوں کو جس وقت بھی میں نے ان کا کمرہ کھول کے ان پہ نظر ڈالتی تو تسبیح اور ہاتھ آسمان کی طرف دیکھ کے مستقل دعا اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ آنسو بھی اکثر چھلکتے تھے۔ اور مجھے مسکرا کے کہتے تھے کہ آگئی ہے حج کا ثواب لینے؟
جانے سے پہلے ہر اس شخص سے فون پہ بات کرنا چاہی اور کی جو کہ ان کے دل کے قریب تھے۔ میرے والد صاحب کا میرا ایسا اٹوٹ رشتہ بن چکا تھا کہ میں ان کے جانے کا غم ان کی زندگی میں ان کے سامنے کئی دفعہ منا چکی تھی۔ اور وہی مجھے تسلی اور صبر بھی دیتے تھے۔ میرے والد صاحب کو اس بات کا پتہ تھا کہ سات سال دن رات میں، میری والدہ اور میرے والد صاحب ہم ایک ساتھ اکٹھے رہے اور وہ دونوں میری کل کائنات تھے۔ جب میں آنسوئوں سے روتی کہ آپ کے جانے کے بعد میں کیسے رہوں گی مجھے زندگی میں اس کا خوف ہے۔ والد صاحب سمجھاتے کہ ایک دن سب کو جانا ہے اور یہ دنیا کا نظام ہے میں بھی اپنے والدین کے بغیر رہا ہوں اور تمہیں بھی رہنا پڑے گا اور تم ٹھیک رہو گی انشاء اللہ۔ میں ان کو کہتی کہ میرے صبر کے لیے آپ دعا مانگیں میرے والد صاحب نے شاید میرے لیے اپنے جانے سے پہلے میرے صبر اور ہمارے صبر کی اتنی دعا مانگی کہ جب وہ اس دنیا سے گئے تو دنیا نے دیکھا کہ ہمارے صبر کی کیا انتہا تھی۔ یہ سب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پہ چلنے کا نتیجہ اور میرے والد صاحب کی ہمارے حق میں صبر کی دعا کی قبولیت تھی۔ اس دنیا میں جانے سے پہلے جب کچھ دنوں سے میرے والد صاحب بیمار تھے اس طرح کی علالت نہیں تھی کہ زندگی سے رخصتی ہوتی۔ ہمیشہ کی طرح سب گھر والوں نے ان کا خیال دن رات رکھا۔ وفات کے دن صبح کے وقت والد صاحب کا غیر معمولی طور پر غسل لینا ان کا آخری عمل تھا کیونکہ وہ اپنے رب سے پاکیزگی کی حالت میں ملنا چاہتے تھے۔
پروٹوکول سے والد صاحب کے جسم کو رکھا گیا چارپائی کی جگہ میرا دیوان تھا۔ جس پہ رات کو لیٹ کے میں انکی خدمت کرتی تھی اسی دیوان پر لیٹ کے وہ اس گھر سے رخصت ہوئے۔
مستقل طور پہ کلمہ شہادت
اشہد ان لا الہ الا اللہ و شہد ان محمد عبدہ ورسولہ
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
درود ابراہیمی
الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
صلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ
لبیک یا رسول اللہ
حسبنا اللہ ونعم الوکیل
کی آوازیں ان کے کانوں کے اردگرد مستقل طور گونجتی رہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا وہ انہی آوازوں میں رہنا چاہتے تھے۔
کوئی چیخنے، آہ و بکا کی آواز نہ تھی۔ گھر والوں کو پتہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیخے اور سینہ کوبی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور ہم الحمدللہ بالکل بھی ان میں سے نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پرسکون ماحول تھا جس میں پورے گھر والوں نے پانچ وقت کی نماز ادا کی۔ ایک مجاہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا جس میں ارد گرد سارا ماحول حضور کی سنت کا تھا۔ وہ نعتوں سے عشق رکھتے تھے۔ آخری الوداع میں نے اپنے والد کے محترم کی خواہش پوری کرتے ہوئے، پورے عشق کے ماحول میں ان کو نعت کا عقیدہ پیش کیا ان کے سرہانے بیٹھ کے۔
میں قبر اندھیری میں
گھبراؤں گا جب آقا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ
روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا
جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا۔
الحمد اللہ، جب والد صاحب کو زندگی میں کوئی تکلیف نہ دی تو ان کے جانے کے بعد ان کو کیسے دے سکتی تھی۔
اور آخری الفاظ جو والد صاحب نے ہم سے سنے وہ یہ تھے کہ ابو جی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہم سب کا سلام دیجئے گا۔
اور میں نے اس چیز میں جلدی کی کہ میرے والد صاحب کو لے جایا جائے کہ مجھے علم تھا میرے والد محترم کس تڑپ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور دیدار کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ پھر دروازے تک ان کو نبیوں کی سنت پورے کرتے ہوئے رخصت کیا گیا۔ پھر وہ اپنی پسندیدہ جگہ مسجد اور مسجد سے اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچ گئے جہاں اب زمزم سے ان کے بستر کا استقبال کیا گیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ مجاہد سے شہید کا تمغہ انکے سینے پہ سجا دیا گیا۔ ابو اپنے پسندیدہ صحابی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا کہ یوم پیدائش 13 رجب, کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
جب لوگ مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ نقصان بھرنا ممکن نہیں اب زندگی میں۔ پر میں یہ سوچتی ہوں یہ کس قسم کا نقصان ہے کہ اس بندہِ نواز کے وسیلے اللہ مجھے نوازتا چلا گیا، نوازتا چلا جا رہا ہے اور نوازتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیزمیرے والد محترم کی طرف سے ہر اس شخص کا شکریہ جس نے ان کے لیے بخشش کی دعا کی اور ان کو پڑھائی کا نذرانہ پیش کیا۔ خصوصا ان کے دوستوں کا شکریہ جو اپنے جگری دوست کے لیے آئے۔ خاص طور سے شکر گزار ہوں مصطفی میرانی صاحب اور وصی صاحب کا جن سے ابو بہت گہری دوستی اور تعلق رکھتے تھے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی میرے والد محترم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور ہم سب گھر والوں اور خصوصا ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پہ چلنے اور ان کی نیک صالح اولاد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعاؤں میں ابو جی کو ہمیشہ یاد رکھیے گا۔ ایک دفعہ میرے والد محترم کے لیے فاتحہ خوانی کر لی جیے گا۔ اللہ پاک آپ سب سے راضی ہو۔ جزاک اللہ خیر!