تعلیمی اداروں میں تدریسِ قرآن کے لوازمات

یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان ہمیں قرآن مجید کے صدقے حاصل ہوا ہے۔اللہ کی کتاب۔۔۔۔ قرآن مجید ہے جسے آج تک پاکستان میں اس کا مقام اور احترام نہیں دیا جاسکا۔حالانکہ قرآن مجید باترجمہ پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی کتاب ہے۔ اس کتاب ِ مقدس کا پڑھنا باعث ِ ثواب اور اس پر عمل کرنا باعثِ نجات ہے۔ بچے جو کہ ہماری قوم کا مستقبل ہیں جنھوں نے بڑے ہوکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بچوں بچیوں کو قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا جائے۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں بچیوں کو دیگر سبجیکٹ لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں مگر قرآن مجید جو کہ کتاب اللہ ہے ، سب سے لازمی ہے ، دنیوی واخروی کامیابیوں کا ضامن ہے اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ آخر کچھ مخلص اہل ایمان کی محنت اور پیہم جدوجہد کی بدولت پنجاب اسمبلی نے 2018ء میں لازمی تدریس قرآن ایکٹ پاس کیا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبے بھر کے تعلیمی اداروں بشمول سرکاری پرائیویٹ اور دینی مدارس کے طلبہ کیلئے قرآن مجید کی تدریس کو لازمی قرار دے دیا گیا۔بعد ازاں مذکورہ ایکٹ میں 31مئی 2021ءکو ایک اور ترمیم کی گئی۔ یہ ترمیم ارباب اقتدار واختیار اور محکمہ تعلیم کو پابند کرتی ہے کہ پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں پہلی سے بارہویں جماعت تک کے تمام مسلم طلبہ کوقرآن مجید علیحدہ لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ اس ترمیم کی توثیق ایجوکیشن بورڈ کے 83ویں تعلیمی اجلاس منعقدہ 23جون 2021ءمیں بھی کی گئی۔ مزید براں پنجاب بھر کے سرکاری ، پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ تعلیمی سال 2021-22ءمیں جماعت اول تا پنجم کیلئے ناظرہ قرآن مجید کی تدریس کا علیحدہ لازمی مضمون کے طور پر باقاعدہ آغاز کریں۔
یہ تمام فیصلے بہت ہی خوش آئند ، ایمان افروز ،قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ اور مسلمانان ِ پاکستان کے دل کی آواز تھے۔ چنانچہ ابتدائی لائحہ عمل کے طور پر تعلیمی سال 2023-24ء سے صوبہ پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی ناظرہ تدریس برائے جماعت اول تا پنجم بطور علیحدہ لازمی مضمون کا آغاز کردیا گیا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ سرکاری سکولوں کے طلبہ وطالبات کو ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم کیلئے پارہ جات مفت دیے جائیں گے۔باعث ِ مسرت بات یہ ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد بھی ہوا۔۔۔۔۔چنانچہ گذشتہ تعلیمی سال میں لاکھوں طلبہ وطالبات کو مفت پارہ جات دیے گئے جس کے بہت اچھے نتائج نکلے ، تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر ہوا ، طلبہ وطالبات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور قرآن مجید کی طرف طلبہ وطالبات کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس کے بعد ضروری تھا کہ یہ بابرکت سلسلہ قائم رکھا جاتا جس طرح دیگر مضامین کی کتب بچوں کو مفت دی جاتی ہیں ایسے ہی پارہ جات بھی مفت دیے جاتے۔لیکن ۔۔۔۔افسوس صد افسوس ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم اوربچوں کو مفت پارہ جات دیے جانے کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں کہ جن۔۔۔۔ کا کم از کم اسلام کے نام پر قائم ہونے ملک پاکستان میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اچانک ہی سکولوں کے طلبہ وطالبات تک یہ روح فرسا اور دلخراش خبر پہنچی کہ ا ب انھیں قرآن مجید کی تعلیم کیلئے پارہ جات نہیں ملیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اب ناظرہ قران مجید کی تعلیم کاسلسلہ جاری نہیں رہے گا۔ PCTB نے یہ نادر شاہی حکم جاری کیا کہ تعلیمی سال 2024-25ءکیلئے قرآن مجید اور پارہ جات شائع نہیں کئے جائیں گے۔ اس کیلئے جواز یہ تراشا گیا ہے کہ پاروں کی اشاعت کیلئے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہ ڈیپارٹمنٹ جس نے فنڈز کی کمی کا بہانہ بناتے ہوئے بچوں کو پارے دینے بند کردیے ہیں یہی ڈیپارٹمنٹ بدستور لاکھوں بچوں بچیوں کو اردو ، انگریزی ، ریاضی اور سائنس کی کتب مفت دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 
دوسری طرف اگر ہم حکومت پنجاب کے جاری ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیں تو اس سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ۔۔۔۔فنڈز کی کمی محض بہانہ ہے۔ محسن نقوی جب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں وہ آئے روز اربوں کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ رہے۔ یکم جنوری 2024ءکوانھوں نے جناح ہسپتال میں 150بیڈز پر مشتمل نئی ایمرجنسی کا افتتاح کیا۔2جنوری کو اپ گریڈیشن کے بعد 36تھانوں کا ورچوئل افتتاح کیا۔3جنوری کو یواے ای کی کلاؤڈ سیڈنگ ٹیم سے ملاقات کی جس میں جنوری کے مہینے میں لاہور میں دوبارہ مصنوعی بارش برسانے کا پروگرام بنایا۔ 
9جنوری کوبھی لاہور میں جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا، سی بی ڈی پنجاب بلیووارڈ کا تفصیلی دورہ کیا ،والٹن روڈ ریلوے کراسنگ فلائی اوور کے کام کا جائزہ لیا ، 10جنوری کو 265 بستروں پر مشتمل دل کا نیا ہسپتال بنانے کا اعلان کیا۔ 14جنوری کو ہی پنجاب کے مختلف پریس کلبوں کیلئے ساڑھے نو کروڑ کی گرانٹ جاری کی اس سے اگلے روز واہگہ بارڈر کا دورہ کیا اور پریڈ گراؤنڈ کی توسیع کا اعلان کیا جس پر یقینا اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ 15جنوری تک کے اس مختصر جائزہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس فنڈز کی کمی نہیں بلکہ پنجاب حکومت کا خزانہ لبالب بھرا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ پنجاب حکومت کے خزانے کا منہ ہر قسم کے ترقیاتی کاموں بشمول سڑکیں ، پل ، پولیس سٹیشن ، پارکس اور ہسپتالوں کے لئے تو کھلا ہے۔۔۔اگر پنجاب حکومت کے پاس پیسہ نہیں۔۔۔تو صرف قرآن مجید کی طباعت واشاعت اور تدریس کیلئے نہیں ہے۔پنجاب حکومت کا یہ رویہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن