اندھی نفرت وعقیدت نے ہماری اکثریت کو بوکھلا دیا ہے۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے کی عادت نہیں رہی۔سچ کیا ہے اسے جاننے کی تڑپ بھی معدوم ہوچکی ہے۔بدھ کی صبح احتساب عدالت کے جج بشیر صاحب نے بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ کو غیر ملکی سربراہان سے ملے قیمتی تحائف کو مبینہ طورپر ذاتی استعمال کے لئے توشہ خانہ سے سستے داموں خریدنے کے علاوہ چند نایاب اشیاءکو بازار میں بیچنے کے الزام میں سنگین سزائیں سنائی ہیں۔ سزا سنائے جانے کے وقت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔عدالت برخاست ہونے کے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ اڈیالہ جیل تشریف لائیں۔مجھ جیسے سادہ لوح نے یہ فرض کرلیا کہ وہ جی داری کے ساتھ خود کو سنائی سزا کاٹنے کے لئے حکام کے روبرو حاضر ہوگئی ہیں۔ ان کے جیل پہنچنے سے قبل ا گرچہ چند ذرائع یہ د عویٰ بھی کرتے رہے کہ سزا سنائے جانے اور بشریٰ بی بی کے جیل آنے کے درمیانی وقفے میں سابق وزیر اعظم کی اہلیہ نے چند اہم افراد سے ملاقات کی ہے۔ مبینہ ملاقات کے نتیجے میں شاید محترمہ کو جیل میں قید رکھنے کے بجائے سزا کا عرصہ کاٹنے کے لئے کسی اور مقام کے چناؤکی بات چلی ہے۔
میرے ضرورت سے زیادہ منطقی ذہن نے مذکورہ افواہ کو یاوہ گوئی شمار کیا۔پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاستدان کو کسی سنگین جرم میں جائز یا ناجائز بنیادوں پر سزا سنائے جانے کے بعد جیل کے علاوہ کہیں اور رکھنے کی روایت موجود نہیں۔ بشریٰ بی بی وسیع تر تناظر میں سیاستدان بھی نہیں۔ سیاستدان کی اہلیہ ہیں۔الزام ان پر یہ تھا کہ ا نہوں نے اپنے شوہر کے اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستِ پاکستان کو ملے تحفوں کو ذاتی استعمال کے لئے سستے داموں خریدا اور بہت ہی قیمتی اشیاءکو بیچ دیا۔ جو الزام لگا وہ انتہائی سنگین ہے۔توشہ خانہ کے قواعد کی خلاف ورزی سے کہیں زیادہ یہ پاکستان کی بدنامی اور شدید خفت کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔
سرکار نے بشریٰ بی بی پر جو الزام لگائے اگر وہ واقعتا سوفیصد درست تھے تو رعایت کی گنجائش موجود ہی نہیں تھی۔ احتساب عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد تو اس کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔عاشقان عمران کا ایک طاقت ور گروپ تاہم واٹس ایپ کالوں کے ذریعے مجھے احساس دلاتا رہا کہ احتساب عدالت نے انتہائی عجلت میں روزانہ کی بنیاد پر سماعتوں کے بعد بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ کو سزا سنائی ہے۔ ”انصاف فراہم کرنے کی “عجلت میں بانی تحریک انصاف کو 342والا بیان صفائی دینے کا حق بھی فراہم نہیں کیا۔تحریک انصاف کے تمام وکلاءکو سو فیصد یقین ہے کہ جب یہ معاملہ اپیل کے ذریعے ہائی کورٹ کے روبرو آئے گا تو بشریٰ بی بی اور ان کے شوہر کو سنائی سزا فی الفور معطل کردی جائے گی۔ جس انداز میں سماعت ہوئی اور سزا سنانے میں جو عجلت برتی گئی وہ بالآخر تحریک انصاف کے بانی اور ان کی اہلیہ کا ان کے خلاف لگائے الزامات سے بری قرار پانا یقینی دکھانا رہے ہیں۔
قانون کی باریکیوں سے قطعی نابلد عام شہری کی حیثیت سے میں بطو ر رپورٹر البتہ اس مخمصے کا شکار رہا کہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل پہنچ جانے کے باوجود باقاعدہ گرفتار کرنے کے بعد سزا یافتہ قیدیوں کی بیرک میں کیوں بھیجا نہیں جارہا۔ ہمارے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر ”ذرائع“ کی وساطت سے یہ خبر کیوں پھیلائی جارہی ہے کہ جیل پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی قیدیوں کی بیرک میں جانے کے بجائے جیل کی انتظار گاہ میں تشریف فرماہیں۔انہیں ”گرفتار“ کرنے کے بعد جیل کے بجائے کسی اور مقام پر قید کے ایام گزارنے کے لئے رکھا جائے گا۔
”آزادی صحافت“ کے بھرپو ر موسم میں یہ تفصیلات کسی بھی صحافی کے پاس موجود نہیں تھیں کہ بشریٰ بی بی کو جیل کے علاوہ کہیں اور رکھنے کا فیصلہ کس نے کیا ہے۔اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں اور اگر فیصلہ ہوہی گیا ہے تو اس کے اطلاق میں اتنی دیر کیوں ہورہی ہے۔بدھ کی شام چھ بجے تک مجھے اور آپ کو 24گھنٹے باخبررکھنے کے دعوے داروں میں سے کوئی ایک صحافی بھی مذکورہ بالا بنیادی سوالوں کے جوابات فراہم کرنے کے قابل نظر نہیں آیا۔ دریں اثناء اپنے ذہن میں امڈتے سوالات سے تنگ آکر میں نے چند صحافیوں کو اصل خبر کا کھوج لگانے کو اکسایا تو خبرملی کہ سرکار شدت سے محسوس کررہی ہے کہ بشریٰ بی بی کو اگر سزا یافتہ قیدیوں کی طرح جیل کی بیرک میں رکھا گیا تو بانی تحریک انصاف مزید غضب ناک ہوجائیں گے۔وہ اپنی اہلیہ کی جانب سے پردے کی بابت دینی احکامات کی کامل پابندی کا بہت احترام کرتے ہیں۔ان کی تسلی اور تھوڑی دل جوئی کے لئے فیصلہ یہ ہورہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو سزا یافتہ قیدیوں کے ساتھ جیل کی بیرک میں رکھنے کے بجائے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں منتقل کردیا جائے۔ بشریٰ بی بی اس امر کو آمادہ نہ ہوئیں تو بالآخر ان کے بنی گالہ والے گھر کو ”سب جیل“ قراردے کر انہیں وہاں منتقل کردیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد ہمارے ہاں موجود سیاسی تقسیم مزید گہری اور تلخ ہوگئی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کو خاص طورپر اس کے ”داغ دل“ یاد آرہے ہیں اور وہ زمانہ جب نواز شریف اپنی دختر سمیت 13جولائی 2018ء کے دن لندن سے لاہور تشریف لائے۔باپ بیٹی کو ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ مریم نواز صاحبہ کو ریسٹ ہاؤس کی پیش کش نہیں ہوئی تھی۔ ایسا ہی رویہ آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کے ساتھ اختیار ہوا۔
”غیر جانبداری“ کے دعوے دار میرے چند صحافی دوست تاہم سنجیدگی سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ بشریٰ بی بی کو سزا سنائے جانے کے باوجود عزت واحترام سے ان کے گھر منتقل کردینا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ غالباََ یہ سرکار اور تحریک انصاف کے مابین تلخیوں کو کم کرنے کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے جس کی بدولت بتدریج سیاستدان ایک دوسرے کے باہمی احترام کی عادت اپنا سکتے ہیں اور یوں ہمارے ہاں رواداری کی بنیاد پر سیاسی استحکام یقینی بنایا جاسکتا ہے۔۔نیک دل افراد جو سوچ رہے ہیں وہ ہوتا مجھے نظر نہیں آرہا۔ ملکی سیاست پر کئی برسوں سے حاوی وحشت سے گھبرایا دل اگرچہ د±عا گو ہے کہ وہ درست ثابت ہوں۔
٭....٭....٭