پاکستان میں اردوافسانہ

Feb 02, 2024

رابعہ رحمن

1903ء کا سنہ اردو میں افسانہ کے جنم کا سال مانا جاتا ہے، تب سے اب تک اردو افسانوں میں مقامی اورعالمی سطح پر سیاسی ودیگر حالات اور فطری وادبی تحریکوں سے گہرے اثرات قبول کیے۔اردو افسانے میں تجربے اور جدت کی ذات کبھی بند نہیں ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ ان تمام برسوں میں اس کے سلوک زبان اور ہئیت اور موضوعات میں غیر معمولی تبدیلیاں اور تجربے ظہور میں آئے۔ کبھی ترقی پسندی کا چرچہ ہوا تو کبھی علامت نگا ری کا ۔کبھی سادہ حقیقت نگاری کا پلڑا بھاری رہا۔
 اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1947 میں آزادی کے بعداردوافسانے کے مزاج میں گہری اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رو نما ہوئیں اور خاص کر تقسیم اوراس سے وابستہ خونی فسادات کے واقعات نے اسے شدید مہیج فراہم کیا اور اس موضوع پر جتنا مؤثر اس صنف میں لکھا گیا کوئی اور صنف اپنے معیار اور مقدار میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آزادی اور اس دورکے واقعات کے اثرات ہم آج بھی صاف محسوس کر سکتے ہیں۔
 بہت مدت سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ آزادی کے بعد افسانے میں فکری و ادبی سطح پر جو سفر کیا ۔ اس کااحاطہ کیا جائے اورایک انتخاب ایسا شائع کیاجائے جس میں پاکستان نے اردو افسانہ کے سفر کی روداد بیان ہو اور اس دوران میں جو بڑے لکھنے والے اور جو اعلیٰ درجے کے افسانے میں  اردو ادب کو میسر آئے۔ ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا جائے اور ان کا انتخاب بھی کیا جائے۔ یوں پاکستان میں اردوافسانے کی روایت کا جائزہ لیا جائے۔  
پاکستان میں تخلیق کردہ ادب کس نوعیت کا ہے؟ اورکیا پاکستانی ادب عالمی ادبی دھارے میں اپنی جگہ بناپایا؟اس نوع کے سوالات مختلف اصناف ادب کے حوالے سے اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ پاکستانی افسانے کا یہ انتخاب اور افسانہ نگاروں کے احوال و آثار کی جمع آوری کا یہ کام اس بڑے سوال کے محض ایک جزو صنف افسانہ کی  چہرہ نمائی ہے ۔دیکھا جائے تو اقوام عالم کی زندگی میں 75 سال کی طویل مدت بھی کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ گزشتہ زمانوں میں تو اکثر -50 50 سال ایک ہی حکمران کے زیرسایہ گزرتے جاتے تھے۔ جلال الدین اکبر اور اور نگزیب کا عہد حکمرانی ماضی قریب میں جاپان کے بادشاہ اور روحانی پیشوا ہیرو ہیٹو اورکیوبا کے فیدل کا ستروکی مثال سامنے کی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب زمانہ تیز رفتار ہے جو تبدیلیاں 50 برسوں میں ظہور پذیر ہوا کرتی تھیں وہ آج محض پانچ 10 برس لیتی ہیں۔ 1947 کے فسادات میں لہو کا دریا پار کرنے کے بعد ہم نے گزشتہ 75 برسوںمیں بہت کھویا اوربہت کچھ پایا۔1971ء تک ہم اپنے مشرقی بازو سے دست کش ہوگئے۔ گنگاجمنی تہذیب کیا رخصت ہوئی ہمارے ہاں روشن خیالی مفقود ہوگئی،فرقہ واریت نے ہمیں کھوکھلا کردیا۔ جمہوری رویوںکو ہم نے خیربادکہا، جاگیردانہ نظام سے ہم تاحال پیچھا نہ چھڑاسکے۔ کلاشنکوف کلچر عام ہوا اور فرقہ وارانہ نیز لسانی جھگڑوں سے ہم نے ابھی نمٹناہے جہاںتک کچھ پانے کی بات ہے تو بلاشک وشبہ ہم چندقدم آگے بھی بڑھے۔ ہم نے بیش وکم فنون و لطیفہ ا،دب اور کھیل کے شعبہ جات میں ترقی کی۔ شکر الحمدللہ کہ ہمیں بہت کچھ رائیگاںچلے جانے کا دکھ ہے۔اور ندامت کا یہ احساس اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارا ضمیر ابھی زندہ ہے ۔ پاکستان کی ڈائمنڈجوبلی کے موقع پر اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام یہ پراجیکٹ مجھے تفویض کیا گیا کہ 14 اگست 1947  تا14 اگست 2022ء  کے 75 سالہ دور انیے میں لکھے گئے پاکستانی افسانہ نگاروں کے افسانوں پر مشتمل ایک ایسا انتخاب پیش کردیاجائے جس کے مطالعہ کے معرفت پاکستانی تہذیب ،ثقافت ، تاریخ سیاست اورشارٹ فکشن کے ادبی رویوں سے عمومی سطح پر کامل واقفیت کے علاوہ وہ اپنی جڑوں سے آگاہی اور روایات کے شعور میں اضافہ ہو ۔نیز یہ کہ ہمیں اپنے ماضی اور حال کا تجزیہ کرنے اور مستقبل سے متعلق سوچ بچار کرنے میں بھی مدد ملے اور دنیا بھر کا انگریزی دان طبقہ پاکستانی شارٹ فکشن سے متعا رف ہو سکے۔اس ضمن میںڈاکٹریوسف خشک چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان کا  شکر گزار ہوں۔
 اب سے ٹھیک 119 سال پہلے خط لکھنے کی تکنیک میں اردو کا پہلا افسانہ’ نصیر اور خدیجہ‘ از راشدالخیری’ مخزن ‘لاہوردسمبر 1903 میں سامنے آیا تھا۔
خطوط کی صورت فکشن تخلیق کرنے کی تکنیک سیموئیل رچرڈسن  نے  ناول متعارف کروائی تھی اس کے دو برس بعد اسی تکنیک میں ہنری فیلڈنگ کا ناول جوزف اینڈرویوز 1842ء شائع ہوا اور بعد ازاں اسی تکنیک میں نئے لیولیفے نے آٹھ خطوط بر مشتمل افسانہ لکھ کر شہرت پائی۔ جس سے متاثر ہو کر ’راشد الخیری‘ نے اردو کاپہلا افسانہ ’نصیر اورخدیجہ‘  دسمبر 1903 میں لکھا۔ شہر لاہور کے باب میں جن افسانہ نگاروں کا ذکر ہوا  حیدرآباد دکن کی حجاج امتیاز علی اور پطرس بخاری کو چھوڑ کر سارے کے سارے متحدہ پنجاب بھارت میں جنم لینے والے پنجابی تھے افسانہ نگاروں کی اس کہکشاں میں پشاور کے ایک پٹھان احمدشاہ پطرس بخاری بھی دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے ’پطرس کے مضامین ‘ کے عنوان سے مضامین کامجموعہ شائع کرواتے وقت اپنے چار افسانے’ میبل اورمیں‘ ’ ہاسٹل میں پڑنا، ’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘ اور ’مرید پور کا پیر‘ بھی  شامل کتاب کر دیئے۔ 

مزیدخبریں