’’ابسولیوٹلی ناٹ‘‘سے امریکہ میں لابنگ تک

    جمہوریت بنیادی طور پر عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے ریاست میں ایسے نظام کا نام ہے جس میں عوام کے اپنے منتخب کردہ نمائندے اقتدار میں آنے کے بعد آئین میں دیئے گئے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام الناس کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ان کے رویے کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ریاستی امور کی انجام دہی کے دوران عوامی نمائندوں کو کچھ ایسے تلخ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں جو عوام کے لیے ناقابل قبول ہوتے ہیں۔یہی سیاسی نمائندوں کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ریاست کے لیے ناگزیر ایسے فیصلوں کو جو عوام کے لیے ناپسندیدہ ہوں اپنے لچک دار اور مفاہمانہ رویے کے ذریعے ان فیصلوں کو ریاست اور عوام دونوں کے لئے قابل قبول بنانے کی سیاسی استعداد رکھتے ہیں۔
 ایسے میں سیاسی لیڈر یا عوامی نمائندے کی اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ عوام کو خوش کرنے کیلئے لیڈر کا لچکدار رویہ اسے اور اس کی شہرت کو بام عروج پر ضرور پہنچا دیتا ہے، لوگ اسے دیوانہ و ار چاہنے لگتے ہیں اوراسے ناقابل تسخیر قرار دیا جانے لگتا ہے۔ اس کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی ہے تو وہ زیادہ ضد اور اکھڑ پن کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر یہی ضد اور کھردرا پن اس کی وجہ شہرت بن کر اسے تکبر اور گھمنڈ جیسے مرض میں مبتلا کردیتا ہے اور اسے ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جس کا انجام گہرے گڑھے میں گرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
    عمران خان کی ضد کرکٹ کے کھیل میں عروج کے زمانے سے ہی اس کی پہچان چلی آرہی تھی۔ وہ کھیل کے میدان سے باہر بھی بطور کرکٹر دنیا بھر میں چاہا جانے لگا تھا۔ فلمی صنعت وفنون لطیفہ کی دیگر اصناف میں شہرت حاصل کرنے والے ہوں یا کھیل کے میدانوں میں نام پیدا کرنے والے، ان سب کو دنیا بھر میں چاہا جاتا ہے۔ لوگ ان کی جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں ،ان کا آٹو گراف لینے کے لئے خود کو اذیتوں میں ڈالتے ہیں۔
 ایسے میں کسی ''سیلیبریٹی''کی طرف سے اکھڑ پن کا مظاہرہ عوام کے لیے اس وجہ سے بھی قابل قبول ہوتا ہے کہ ان کو یہ نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کھیل کے میدان میں ہیرو کا درجہ پا کر لاکھوں دلوں پر راج کرنے والا سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو وہ عوام کی طرف سے ان کے والہانہ پن کا عادی ہونے کی بدولت سیاست کے اس اصول کو تسلیم کرنے کو ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتا کہ وہ اب عوام کا نمائندہ ہے جس کے گْن گائے جائیں گے توساتھ ہی تنقید بھی ہوگی۔ اعتراض بھی ہوگا اور سچے جھوٹے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اسے خود پر کی جانے والی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہوگی۔لیکن کھیل کے میدان سے شہرت حاصل کرنے والے ہیرو کیلئے یہ مشکل ہی نہیں ناممکن عمل بھی ہوتا ہے۔
    اقتدار ملتے ہی عمران خان کا پہلا مسئلہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے ان کا غلط انتخاب تھا۔ ہر طرف سے تحفظات کے اظہار کے باوجود عمران خان نے اس تعیناتی پر نظرثانی کرنے کی بجائے اپنے مزاج کے مطابق اسے ضد بنالیا۔ جس کے اثرات ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کے ریاستی امور میں دیگر فیصلوں پر اثر انداز ہوتے چلے گئے۔ اس کے ضدپر مبنی فیصلوں کو نفسیاتی طور پر ملک کے نوجوان طبقہ میں بھرپور پذیرائی ملی۔ پنجابی فلموں کے مقبول کردار ''مولاجٹ'' کی طرح جس نے پاکستانی فلمی حیثیت میں رومانوی اور اصلاحی فلموں کے دور کا خاتمہ کر کے اس کے جگہ اکھڑ اور ہر وقت مخالفین کو تہس نہس کردینے کیلئے تیار کردار کو اس طرح رواج دیا جو آج بھی مقبول ہے۔بھلے اس کردار کی وجہ سے ملک کی پوری فلمی صنعت مولا جٹ کے گنڈاسے کا شکار ہوکر تباہ ہوگئی۔ 
عمران خان نے بھی اپنے بے لچک غیر سیاسی رویے کی وجہ ملک کے اندر اور باہر اپنے ایسے اندھے عقیدت مند پیدا کرلیے جو اس کے امریکہ کو ''ابسولیوٹلی ناٹ''کہنے پر اپنے لیڈر پر اس طرح فداہوئے کہ عمران خان کے سامنے ریاست کی تمام خارجہ پالیساں صفر بن کر رہ گئیں۔اس کے بعد ریاست اورپی ٹی آئی کے درمیان ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہوئی تو اسے کامیابی قرار دے کر  ملک میں جاری سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا گیا۔
 ان حالات میں پہلے قومی اسمبلی توڑنے بعد ازاں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے تک کے تمام فیصلے ایک کے بعد دوسری جذبات میں آکر کی گئی غلطی بن کر پی ٹی آئی کے گلے کا ہار بنتی چلی گئی جس کا انجام 9مئی 2022ء کی صورت میں سامنے ہے اور اب حالت یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان بہت سے مقدمات کے تحت پابند سلاسل ہے۔تو دوسری طرف پارٹی کی عبوری قیادت امریکہ میں لابنگ کرنے میں مصروف ہے تاکہ الیکشن 2024ء  کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان میں بھاری سرماریہ کاری کے ذریعے مبالغہ آمیز حد تک جعلی خبریں تیار کر کے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر عالمی دباؤ ڈلوا کر پی ٹی آئی کیلئے رعایتیں حاصل کی جاسکیں۔ 
علاوہ ازیں 9مئی کو فالس فلیگ آپریشن ثابت کر کے افواج پاکستان اور عوام کے درمیان خلیج پیداکرنا بھی اس سرمایہ کاری کا حصہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن