عمران نے شہریار ریاض کو 3 کروڑ میں ٹکٹ فروخت کی۔ شیخ رشید۔
کسی اور نے کہا ہوتا، کسی اور سے سنا ہوتا تو ہم بھی تسلیم نہ کرتے۔ مگر اب جو بات کپتان کے نفس ناطق شیخ رشید کہہ رہے ہیں۔ اس کو جھٹلانے کی ہمت کون کر سکتا ہے سوائے سوشل میڈیا پر چھائے جذباتی لوگوں کے۔ اس بات کو تو شیخ جی نے خدا کو حاضر ناظر جان کر کہا ہے کہ عمران نے پنڈی کا ٹکٹ شہریار ریاض کو 3 کروڑ روپے میں فروخت کیا ہے۔ اب خدا جانے سچ کیا ہے اندرونی ذرائع کے مطابق اس وقت تحریک انصاف کے ٹکٹوں کا ریٹ 2 سے 4 کروڑ تک کا چل رہا ہے۔ تو پھر پنڈی میں یہ کافی مہنگا سودا ہے کیونکہ اگر شیخ جی کو کھلا میدان ملتا تو وہ کونسا کسی اور گھونسلے میں جا کر انڈے دیتے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو ہی سپورٹ کرنا تھا مگر انہیں تو کپتان نے مشورے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔
اس پر شیخ جی کا گلہ تو بنتا ہے…جبھی تو انہوں نے بددعا دی ہے کہ پنڈی میں پی ٹی آئی والوں کو قلم دوات کی مار پڑے گی۔ یعنی وہی کامیاب ہوں گے۔ صرف یہی بات نہیں باجوڑ میں قتل ہونے والے جہاں زیب نے بھی اپنے آخری ٹویٹ میں یہی شکوہ کیا تھا کہ ان جیسے وفادار دیرینہ کارکن کی بجائے پارٹی کا ٹکٹ ایک کرپٹ پیسے والے کو دیا گیا جس کی شہرت اچھی نہیں۔ اس لیے وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے اب پی ٹی آئی والے اس کی موت کو کیش کرا رہے ہیں اور اسے اپنا امیدوار بتا رہے ہیں۔ یہ ہے ہماری سیاست کی بے حسی کی انتہا۔ زندہ کی قدر نہیں کرتے اور مرنے والیکو پوجتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
تمام سیاسی جماعتوں کو میڈیا پر برابر کی کوریج دی جائے۔ الیکشن کمشن۔
دیر آید درست آید۔ الیکشن کمشن نے یہ اچھا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا پر آ کر عوام کے سامنے اپنی سیاسی کارکردگی دکھانے یعنی جلسے جلوس اور تقریریں کر کے عوام کو ماموں بنانے والوں کی کارکردگی یکساں طور پر سب کے سامنے آنی چاہیے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو عوام کو ماموں بنانے کا اپنی طاقت دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس وقت واقعی میڈیا پر جہاں دیکھو تیر چل رہا ہے۔ شیر دھاڑ رہا ہے۔ عقاب اڑ رہا ہے۔ پتنگ ڈول رہی ہے۔ ترازو ہل رہا ہے۔
اب اگرچہ بلا تو موجود نہیں مگر اس کے حامی امیدواروں کو بھی اپنے رنگ برنگے انتخابی نشانات کے ساتھ عوام کے سامنے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ کم از کم اور کچھ نہیں تو پی ٹی آئی کے جھنڈے دیکھ کر ہی لوگ اندازہ لگا لیں گے کہ یہ کس کا جلسہ ہے یا ریلی ہے۔ یہ کس کا امیدوار ہے۔ انتخابی نشانات تو ایسے ہیں کہ انہیں لے کر نکلنا کئی جگہوں پر مذاق کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے میڈیا پر کوریج سے کم از کم سب جماعتیں کہہ سکیں گی کہ ہم نے کھل کر مہم چلائی۔ اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔ صرف چھ دن باقی ہیں۔ اس کے بعد ووٹنگ ہو گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ سب کچھ سامنے ہو گا اور بقول شاعر
’’جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا‘‘
٭٭٭٭٭
سابق امریکی صدر ٹرمپ چوتھی بار نوبل انعام کے لیے نامزد
خدا جانے یہ نوبل انعام تقسیم کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ان کی عقل کہاں سو گئی ہے۔ انہیں سابق امریکی صدر ٹرمپ میں ایسی کیا خوبیاں نظر آ گئی ہیں کہ انہوں نے چوتھی بار انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ اگر امریکہ کے موجود صدر جوبائیڈن کی فلسطین دشمن انسانیت کش پالیسیاں دیکھی جائیں تو واقعی ٹرمپ ایک شریف انسان نظر آئیں گے گو ان کے ہاتھ بھی ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں مگر موجود صدر جوبائیڈن نے جو قیامت مچا رکھی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے تو ان کو اگر مناسب ہو تو عالمی سطح پر ہٹلر نمبر 2 کا اعزاز دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ مودی کو جس طرح گجرات کے قتل عام پر قصاب کا خطاب ملا تھا جوبائیڈن کو بھی عالمی قصاب کہا جا سکتا ہے۔ اب یہ تو برطانیہ کو عقل آ گئی ہے جس نے گزشتہ روز فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کو ناکام ریاست قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کی 30 برس سے پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ عالمی سطح پر جس طرح فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے یہ ا ن 30 ہزار فلسطینیوں کے خون کا صدقہ ہے جو بے ضمیر عالمی حکمرانوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اسرائیل ابھی تک 3 ماہ سے زائد ہو چکے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت تک اسے روکنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
٭٭٭٭٭