نوازشریف ”منی لانڈرنگ“ کے ذریعے جو رقم باہر لے کر گئے وہ بھی واپس لائیں : گورنر پنجاب سلمان تاثیر

Jan 02, 2010

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (سلمان غنی) گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سازشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ صدر زرداری کی کردار کشی اسی سلسلے کی کڑی ہے‘ آصف زرداری‘ پرویز مشرف یا غلام اسحق خان نہیں بلکہ وہ دوتہائی اکثریت سے آئے ہیں‘ سسٹم کو خطرہ نہیں‘ خطرہ انہیں ہے جنہیں جمہوریت راس نہیں آتی‘ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کی حیثیت بارہویں کھلاڑی کی ہے نہ یہاں کابینہ کے اجلاس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اسمبلی اجلاس کی‘ دس چیزیں چھوڑ کر کسی ایک پر بولتا ہوں تو وہ چیخ اٹھتے ہیں‘ آگ لگ جاتی ہے‘ اس حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں سے بہتر نہیں‘ وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں آنے سے گریزاں ہیں‘ پنجاب کابینہ مکمل نہیں صحت اور تعلیم سے ان کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ ان کے وزیر نہیں‘ سارے فیصلے وزیر اعلیٰ کرتے ہیں‘ کیا کسی مشاورت کی ضرورت نہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ محاذ آرائی یا ٹکرا¶ نہ ہو مگر کہاں تک خاموش رہوں‘ اقتصادی حالات امن و امان پر بولنا‘ پوچھنا میرا حق ہے‘ میں بولتا ہوں تو ان کے ترجمان غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں‘ ”سیاسی پسو“ میرے پیچھے لگا دیتے ہیں مگر میں خوفزدہ ہونے والا نہیں‘ اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔ وہ گذشتہ روز ”وقت نیوز“ کو خصوصی انٹرویو میں اظہار خیال کر رہے تھے‘ پروگرام کے پروڈیوسر میاں شاہد ندیم اور اسسٹنٹ پروڈیوسر وقار قریشی تھے۔ گورنر نے کہا کہ سوئس اکا¶نٹس سے رقوم کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے نوازشریف خود ”منی لانڈرنگ“ کے ذریعے جو کچھ باہر لے گئے وہ واپس لائیں‘ وہ بتائیں کہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں‘ ہم پر الزام تراشی کرنے اور سازش کرنے والے یہ مت بھولیں کہ جنرل درانی نے خود کہا تھا کہ ہم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف انہیں پیسے دئیے تھے‘ آئی ایس آئی کا کیس ریکارڈ پر ہے‘ ہم نہیں مانتے کہ لوگ مایوس ہیں‘ یہ نظام چلنا ہے اسے کوئی خطرہ نہیں‘ پانچ سال کے مینڈیٹ کا دو سال میں نتیجہ نکالنا درست نہیں‘ این ایف سی ہمارے دور میں آیا‘ بلوچستان پیکج کس کا کارنامہ ہے‘ گلگت بلتستان میں جمہوری عمل کس نے شروع کیا‘ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے کہ چھ ماہ بعد کہہ دیا جائے کہ مڈٹرم الیکشن کرا لو‘ انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے خلاف نہیں میڈیا کے کردار اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر چند لوگوں کا ایک میڈیا گروپ ہے‘ یہ کس ایجنڈا پر ہیں‘ ایک شخص پی ٹی وی کا چیئرمین کس دور میں بنا؟ اب وہ نجی چینل پر بیٹھ کر غلیظ زبان استعمال کرتا ہے‘ یہ زرد صحافت نہیں تو اور کیا ہے‘ صدر زرداری کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا ہے‘ ایک دفعہ وہ بول پڑے ہیں تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔ بی بی شہید کے خلاف بھی ایسے ہوتا رہا ہے‘ یہ نئی بات نہیں‘ چارٹر آف ڈیموکریسی پر گامزن ہیں لیکن 17ویں ترمیم کوئی حدیث نہیں‘ یہ صرف 58ٹوبی کا سوال نہیں‘ اس پر سب کی رائے لیں گے‘ سب مل کر فیلصہ کریں گے‘ یہ فیصلہ دبا¶ میں نہیں کرنا چاہتے‘ صدر کی اصل طاقت سیاسی قوت ہے‘ کیا وہ 58ٹوبی کا استعمال اپنی حکومت کے خلاف ہی کریں گے؟ ہماری کوشش ہے کہ حکومتیں مدت پوری کریں اور سسٹم مضبوط ہو‘ صدر زرداری کی خواہش ہے کہ اقتدار کی منتقلی سویلین حکومت کو ہو‘ حکومت کسی ادارے کو ٹارگٹ نہیں کر رہی سب کو ساتھ لے کر چلا جا رہا ہے لیکن کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں‘ صدر پر الزام تراشی کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ گیارہ سال جیل میں رہے‘ ان پر کون سا الزام سچ ثابت ہوا‘ ہاں جس جس نے لوٹ مار کی بدعنوانیوں‘ بے ضابطگیوں کے عمل کا حصہ بنے ان کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسا جانا چاہئے‘ این آر او پر عدالتی فیصلہ درست لیکن یہ سلسلہ ون سائیڈڈ نہیں ہونا چاہئے۔ امن و امان اور اقتصادی صورتحال پر بولنا میرا حق ہے‘ پنجاب میں اوور ڈرافٹ کیوں ہے‘ میں بولتا ہوں تو جواباً غلط زبان استعمال کی جاتی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے رجحان کو الارمنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وطن دشمن ہیں‘ یہ فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘ فوج کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں‘ یہ دہشت گرد پاکستان کی بربادی چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان پر قبضہ چاہتے ہیں‘ ایسا نہیں ہو گا‘ ان کے ارادے خطرناک ہیں‘ یہ صرف پاکستان تک نہیں اور ملکوں میں بھی سرگرم ہیں‘ پاکستان ایٹمی ملک ہے‘ ہمارا دشمن اس پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے لیکن ہمارے پاس اس کے تحفظ کا م¶ثر طریقہ ہے‘ یہ مضبوط بھی ہے اور محفوظ بھی‘ دہشت گردی پر امریکی ڈکٹیشن عجیب بات ہے‘ چین بھی چاہتا ہے کہ دہشت گردی ختم ہو اور پاکستان بھی یہی چاہتا ہے‘ خواہ مخواہ امریکہ کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں‘ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے جرائم پیشہ ہیں طالبان نہیں۔ ضلعی حکومتوں کا سسٹم جنرل مشرف کا نہیں ایک سسٹم ہے‘ پیپلز پارٹی اس کی حمایتی ہے‘ ہم ان کے ا نتخابات کے لئے تیار ہیں‘ یہ سسٹم چلنا چاہئے‘ ناظمین پر کرپشن کے الزام لگا کر ٹارگٹ کیا گیا تو میں نے ساتھ دیا‘ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا کارکن کوئی مایوس نہیں‘ یہ میڈیا کا خیال ہے‘ وہ اپنی حکومت کی مضبوطی چاہتے ہیں‘ بےنظیر بھٹو کے قاتل ضرور بے نقاب ہوں گے۔ کراچی میں دہشت گردی‘ گھیرا¶‘ جلا¶ منظم واقعہ تھا یہ سب یکایک ہوا‘ سسٹم کی بقا اور استحکام کے حوالہ سے نوازشریف کا طرز عمل بہت مثبت ہے‘ ان کا کہنا کہ نظام کے خاتمہ کی کسی کوشش میں حصہ دار نہیں بنیں گے قابل تعریف ہے‘ یہی جذبہ جمہوریت کو مستحکم کرے گا۔ انہوں نے لاہور میں پلازوں کے خلاف آپریشن پر کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم نہیں‘ میں گورنر ہوں تو ”لاہوریا“ بھی ہوں‘ اس لوٹ کھسوٹ کے عمل کو اچھا نہیں سمجھتا‘ تنگ آ کر بولنا پڑتا ہے‘ ہر چیز میں طاقت کا استعمال اچھا نہیں ہوتا معاملات بات چیت سے ہی طے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں نگران حکومت میں مشروط طور پر شامل ہوا تھا کہ مشرف وردی اتار دیں گے یہ کہنا درست نہیں کہ ان کے ساتھ تھا۔
مزیدخبریں