اسلام آباد (ثناءنیوز) سال 2011ءپاکستانی معیشت کیلئے انتہائی مایوس کن رہا۔ ملکی معیشت کو جہاں توانائی کے بحران اور افراطِ زر کے دباﺅ کا سامنا رہا، وہاں پر عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے بند ہونے سے غیرملکی امداد اور قرضے بھی پاکستان کیلئے بند ہوگئے جس کے باعث کرنسی نوٹ چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کئے جاتے رہے۔ سال 2011ءکے دوران ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستانی کی معیشت سخت چیلنجز کا شکار رہی۔ سارا سال حکومتی اقتصادی ٹیم آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنے کیلئے اسکی شرائط پوری کرنے کیلئے تردد کرتی رہی۔ اس سلسلے میں اصلاح شدہ جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ، بجٹ خسارہ کم کرنے، سبسڈی ختم کرنے اور بجلی کے شعبے میں اصلاحات لانے جیسے اہم معاملات پر کام کرتی رہی مگر بعض جگہوں سے ان اقدامات کی شدید مخالفت کے باعث ان امور پر خاص پیشرفت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے عائد شرائط پوری نہ ہوسکیں اور آئی ایم ایف نے ایک توسیع دینے کے بعد یکم اکتوبر کو پاکستان کیلئے قرضے کا پروگرام ختم کردیا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بند ہونے سے نہ صرف پاکستان 3 ارب ڈالر کے طے شدہ قرضے سے محروم رہا بلکہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت مختلف ممالک کیلئے بھی امداد اور قرضے سے محروم ہوگیا۔ غیرملکی امداد نہ ملنے سے حکومت کو ملکی ذرائع سٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں سے قرضے حاصل کرنا پڑے جس سے ملکی معیشت شدید مسائل کا شکار ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ سال بجلی اور گیس کے بحران کا بھی شکار رہا۔ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ گرمیوں میں بھی سی این جی موجود نہ تھی اور ہفتہ وار لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی شدید کمی بھی ملکی معیشت کو دیمک کی طرح کھاتی رہی۔ مذکورہ سال کے دوران تاریخ میں پہلی مرتبہ بجلی کی قلت 8 ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی جو تاریخ میں سب سے زیادہ کمی تھی۔ مزدور کام کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے اور بعض نے حالات سے تنگ آکر خودکشیاں بھی کرلیں۔ سال 2011ءملکی معیشت کیلئے ایک ہی نوید لیکر آیا کہ اس سال پاکستانی برآمدات 25 ارب ڈالر اور ترسیلاتِ زر 12 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئیں جس سے ملکی کرنٹ اکاﺅنٹ دباﺅ سے محفوظ رہا۔