میرے گذشتہ کالم ”پاکستان میں اسلام کی صورت گری“ پر بہت سے صاحبان علم خصوصاً ڈاکٹر مقصود جعفری‘ طارق جان‘ ڈاکٹر نذر الاسلام جیسے دانشور اور محقق حضرات نے مجھے اس موضوع پر اپنی قیمتی آراءسے نوازا لہٰذا میں اپنی کمتر علمی حیثیت کے باوجود مذہب اور ریاست کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح کا نقطہ نظر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ہو سکتا ہے میں موضوع سے کلی انصاف نہ کر سکوں مگر قائداعظم کے ایک ادنیٰ پیروکار اور انکے جانثاروں نسیم انور بیگ مرحوم اور محترم مجید نظامی کی نظریاتی رہنمائی کی بدولت ایک حقیر سی کاوش اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ اگرچہ ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے بطور قوم ہم نے اب تک جو لائحہ عمل اختیار کیا ہے نظریاتی طور پر اس میں کوئی جھول نہیں ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہماری حکمران قیادت اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن کے مطابق اس لائحہ عمل کے عملی تقاضے پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا ہماری اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو ایک جدید‘ ترقی یافتہ فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا جو فیصلہ کر رکھا ہے اس کے عملی تقاضوں کو قائدؒ اور اقبالؒ کے نقطہ نظر سے سمجھیں اور ان کی تکمیل کی کوشش کریں لہٰذا اس لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دانشور حضرات حکمران اور اصحاب رائے اشخاص کے ذہن کسی قسم کی نظریاتی کنفیوژن کا شکار نہ ہوں تاکہ پاکستان کو جدید ترقی یافتہ فلاحی اور اسلامی ریاست بنانے کے مقصد کے حصول کی طرف سنجیدہ پیش قدمی کی جا سکی۔
قارئین 21 مارچ 1948ءکو قائداعظمؒ نے ایک جلسہ عام سے ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا
"Islam has taught us this and I think You will agree with me, for whatever else you may be and whatever else you are, You are Muslim. You belong to a nation Now.
سابق چیف جسٹس محمد منیر نے اس اقتباس میں لفظ "Now" کے استعمال سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان کو علاقائی بنیادوں پر ایک مسلم نیشن سٹیٹ قرار دیا اور نتیجہ بھی اخذ کیا کہ جس طرح مدینے کی مسلم ریاست میثاق مدینہ کے مطابق ایک علاقائی ریاست تھی اور مدینے کی آبادی کے غیر مسلم عناصر کو مسلمانوں کے ساتھ ایک ملت واحدہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح اب پاکستان میں بھی تمام باشندے مذہب کے اختلاف سے قطع نظر برابر کے شہری ہیں یہ تھا مذہب اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے قائداعظم کا نقطہ نظر نامور محقق ڈاکٹر مقصود جعفری نے اپنے خط میں قائداعظم کے خیالات کی بڑے دلکش انداز میں کچھ اس طرح ترجمانی کی ہے۔
"The founder of Pakistan, in his different speeches categorically announced that Pakistan was not being created for feudal lords, bureaucrats, religious extremists and capitalists. In his speeches he candidly mention Pakistan would be modern and demorcratic Islamic welfare state based on principles of Quran and Sunnah. There would be no racial and religious discrimination in Pakistan. The Holy Prophet permitted the Christians of Najran to worship in the mosque as the wish to worship. It shows human and universal mission of Islam."
قارئین یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد مسلم لیگی قیادت قائداعظم کے موقف کے مطابق آئین کی صورت گری کیوں نہ کر سکی اور اُن کے موقف سے کیوں دور ہوتی گئی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی حلقوں نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اسلامی آئین کے نفاذ کے حق میں اپنے نقطہ نظر اور فہم اسلام کے مطابق جو زبردست مہم چلائی مسلم لیگی قیادت م¶ثر استدلال سے اسکا جواب دینے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دی اور مدافعانہ طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور ہو گی اِس کے علاوہ اُنکا اپنا ذہن بھی قائد کے تصور ریاست اور مذہب کی درست تشریح کرنے کی اخلاقی جرات سے محروم دکھائی دیا اور وہ مذہبی حلقوں کے سامنے کبھی یہ کہنے کی اخلاقی جرات نہ پیدا کر سکے کہ ہم آئین پاکستان میں قائداعظم کے افکار اور خیالات کی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔ جب 1953-54ءکی اینٹی قادیانی ایجی ٹیشن کی انکوائری کے دوران جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے مولانا مودودی، مولانا ابوالحسنات اور مولانا محمد احمد قادری سے یہ سوال کیا کہ اگر آپ کی تشریح کے مطابق پاکستان کو اسلامی ریاست تسلیم کر لیں اور پاکستان میں غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری (ذمّی) سمجھا جائے تو کیا آپ ایسا ہی سلوک بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی قبول کرنے پر تیار ہیں تو یہاں مولانا مودودیؒ کا جواب تھا یقیناً مجھے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے Certainly, I should have no objection اگر ہم پاکستان ایک خاص مفہوم میں نظریاتی ریاست سمجھیں گے تو پھر دنیا کے ہر مسلمان کے لئے پاکستان دارالاسلام کا درجہ رکھتا ہے اور کوئی مسلمان چاہے وہ ہندوستان کا ہو یا عرب، مصر یا افریقہ کے کسی ممالک کا، وہ بغیر ویزے پاکستان میں رہائش پذیر ہو سکتا ہے مگر کیا عملاً ایسا ہے؟ ایک پاکستانی ہندو پاکستان کی مسلم ریاست کا باشندہ ہے اور ایک ہندوستانی مسلمان آئین اور قانون کے مطابق سیکولر ہندوستان کی ریاست کا باشندہ ہے۔ ہاں اگر خلافت کے نظام کے تحت دنیا کے تمام مسلمان ممالک کا اتحاد و اتفاق ہو تو مسلم اُمّہ کے تصور کو حقیقت کے رنگ سے کسی حد تک ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے مگر دارالحرب میں رہنے والے اقلیتی مسلمانوں کو مسلم اقلیتی ممالک میں منتقل ہونے کی اجازت دینا پڑے گی۔ یہ دیکھئے کہ کانگریس وطنی قومیت کی علمبردار تھی اور نظریاتی قومیت کی مخالف تھی اگرچہ عملی طور پر نہ سہی مگر دستور، قانون اور زبانی دعوے کی حد تک وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت کا حصہ سمجھتی ہے اور مخلوط انتخابات میں مسلمانوں کو ووٹ کا برابر حق دیتی ہے ایسا ہی اب پاکستان میں بھی ہے غیر مسلم برابری کی بنیاد پر مسلم امیدواروں کو ووٹ دینے کا آئینی حق رکھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں نظریاتی ریاست اور مسلم قومی ریاست کے حوالے سے اپنا مخمصہ دور کرنا ہو گا۔
جس کو ہم پچھلے 65 برسوں سے اپنے فکری انتشار کی وجہ سے حل نہیں کر سکے اور ہمارے حکمرانوں نے اگرچہ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا اور ملک کا نام بھی بھی اسلامی جمہوریہ رکھ دیا جس کی وجہ سے دو پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے مذہبی علماءکے مشوروں کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور مزید ان کے لبرل طرز زندگی اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے عدم واقفیت کی وجہ سے پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بننے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ چنانچہ آج طالبان ہوں یا فضل الرحمن، طاہرالقادری ہوں یا منور حسن۔ سبھی کا یہ مطالبہ ہے کہ حکمرانوں کی نااہلیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے ملک تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لہٰذا اقتدار مذہبی جماعتوں کے صالح، دانا، پرہیزگار اور اسلامی سوچ و فکر کے حامل افراد کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق ایک اسلامی رفاعی اور جمہوری ریاست کے قالب میں ڈھال دیں۔ اگر ہم قائداعظم اور اقبال کے تصور ریاست و مذہب اور اجتہاد کے راستے پر چلتے تو ہمارے ملک میں ایک طرف سیاسی بحران اور دوسری طرف مذہبی قیادت کی وجہ سے فرقہ وارانہ رقابت اور مخاصمت اور مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی نہ ہوتی لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاکستان کی سیاست اور ریاست کے معاملے میں اسلام کو ایک روشن خیال نظام زندگی کے طور پر متعارف کروائیں۔ مذہبی نعرہ بازی ترک کریں حکمران اور مولوی پاکستان کو ایک ایسی مملکت بنانے کی جدوجہد کریں جو پاکستان کے عوام کو محرومیوں، ظلم، استحصال، بیماری، بھوک، بے روزگاری، پسماندگی اور ناخواندگی سے نجات دلا دے۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جو اسلام اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہو۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا شمار ”راسخون فی العلم“ میں سے ہونا ضروری ہے بالکل ایسے جیسے شاہ ولی اللہ، مولانا عبداللہ سندھی، ڈاکٹر علی شریعتی، علامہ محمد اسد اور وحید العصر علامہ اقبال ۔
پاکستان جدید اسلامی فلاحی مملکت
Jan 02, 2013