لاہور (خصوصی رپورٹر) قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کی طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حمایت ایک مزاحیہ ڈرامہ اور موقع پرستی، بے اصولی اور ابن الوقتی کی بدترین اور انوکھی مثال ہے۔ ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جو پچھلے دس سال سے اقتدار کے مزے لو ٹ رہی ہے۔ (ق) لیگ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پہلے انہوں نے جنرل مشرف کی تابعداری میں حکمرانی کی اور اس کے بعد آصف زرداری سے مل کر اقتدار کے مزے لوٹے۔ دونوں جماعتیں اس وقت بھی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کا اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ میں حصہ لینے کا اعلان ایک انتہائی مضحکہ خیز امر ہے اور عوام کو بدترین دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ جنرل مشرف اور آصف زرداری کے ہر اچھے، برے عمل میں شریک ہونے والے اب کس منہ سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2002ءکے ریفرنڈم اور اس کے بعد طاہر القادری، ایم کیو ایم اور ق لیگ مشرف کی غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت کے ستون تھے اور جنرل مشرف کو اس ملک کا نجات دہندہ قرار دیتے تھے۔ جنرل مشرف کی اس ٹیم کے چوتھے ستون، عمران خان نے بھی پہلے تو طاہر القادری کی حمایت کی اور پھر روایتی کنفیوژن کا شکار ہو کر خاموش ہو گئے۔ جنرل مشرف کے غیر آئینی ریفرنڈم کے لئے ووٹ مانگنے والے آج کس منہ سے پاکستان کے عوام کو آئین، جمہوریت اور شفافیت کی نوید سنا رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام اندھے، بہرے یا گونگے نہیں ہیں جو ان سیاسی بازی گروں کی باتوں پر یقین کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم آئندہ الیکشن میں حصہ لینے پر متفق ہے۔ یہ لوگ اپنے مخصوص ایجنڈے کی خاطر اور بے معنی کٹھ پتلےوں کی طرح اس میں نفاق ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کا بلبلہ، عمران خان کے بلبلے سے بھی زیادہ عارضی ہو گا۔ ساری سیاسی جماعتیں ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمشن اور ایک انتہائی دیانتدار چیف الیکشن کمشنر پر پہلے ہی متفق ہو چکی ہیں۔ یہ عمل سڑکوں کے ذریعے نہیں بلکہ آئین، قانون اور پارلیمنٹ کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ نگران حکومت کے لئے بھی اسی ماحول میں فیصلے ہونگے جو انشاءاللہ سب کے لئے قابل قبول ہونگے۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ایک آزاد خودمختار الیکشن کمشن کی طرح ایک متفقہ نگران سیٹ اپ بھی آئین، قانون اور تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے عمل میں لایا جائےگا۔ اس ملک کا سیاسی نظام اتنا کمزور بھی نہیں کہ ایک سیاسی بازی گر کے اچھلنے کودنے سے فیصلے سڑکوں پر ہونے لگیں۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں نہ تو کسی ”بچہ سقہ“ کی گجائش ہے اور نہ ہی ”ہلاکو خان“ کی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال پاکستان کے عوام کے مسائل اور مشکلات سے دور رہنے والے اور غیر ملک میں پر آسائش زندگی بسر کرنے والے ایک مخصوص اور منفی ایجنڈے کے تحت پاکستان کے جمہوری، سیاسی اور آئینی عمل میں تعطل ڈالنے کے لئے کٹھ پتلیوں کا کھیل کھیلنے آنمودار ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام اتنے سادہ بھی نہیں کہ وہ ان کے دھوکے میں آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ انشاءاللہ ان بازی گروں کی 14 جنوری کے بارے میں پیش گوئیوں کا وہی حشر ہو گا جو چند دن پہلے 21 دسمبر کو Mayan نامی گروپ کی دنیا ختم ہونے کی پیش گوئیوں کا حشر ہوا تھا۔ ایک جلسے کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک بہت بڑا سیاسی لیڈر سمجھ لینے والوں کی حیثیت کا جلد ہی عوام کو احساس ہو جائےگا۔