برصغیر کے سیاسی حلقوں میں یہ خبر حیرت سے سنی گئی کہ بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات میں (جو راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، دہلی اور میزورام کی ریاستوں میں ہوئے) گزشتہ تین انتخابات میں تسلسل سے جیتنے والی خاتون شیلا ڈکشٹ کو جو پندرہ سال سے وزیراعلیٰ چلی آرہی تھیں، ایک نئی پارٹی ”عام آدمی پارٹی“ کے سربراہ اروند گجری وال نے 25 ہزار ووٹوں سے شکست دے دی اور شریمتی شیلا ڈکشٹ نے اپنی ہزیمت تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ”عام آدمی پارٹی“ (اے، اے،پی) کا قیام 26نومبر 2012ءکو عمل میں آیا ۔ اسکے لیڈر اروند گجری وال بھارتی ریاست کی معروف شخصیت نہیں تھے۔ وہ بھارت کی بیورو کریسی کے ہجوم میں ایک ایسے عہدے دار تھے جو ملک کے زوال پذیر تہذیبی کلچر سے نالاں تھے اور معاشرے کو کرپشن کے کینسر سے نجات دلا کر دیانت اور امانت کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ اپنی اس آرزو کی تکمیل کیلئے انہوں نے شری اناہزارے کا ساتھ اس وقت دیا جب انہوں نے کرپشن کے خلاف تحریک چلائی اور عوام میں بیداری کی ایک موثر لہر دوڑا دی۔ اس تحریک میں گجری وال....انا ہزارے کے ترجمان تھے۔ اس تحریک میں ہی انہیں بھارت کے کرپشن سے ڈسے ہوئے اور گرانی اور بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے عوام سے براہ راست رابطے کا موقعہ ملا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہو کر سماجی برائیوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ کانگرس اپنے متعدد حکومتی ادوارمیں اور بی جے پی اپنے چھ سال پر محیط دور حکومت میں عوام الناس کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ انا ہزارے سے ان کا اختلاف اس بات پر ہوا کہ ”معاشرتی اصلاح کے خصوصی مقاصد کیلئے کیا سیاست میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں؟“ گجری وال کے نزدیک کسی بڑے مقصد کے حصول کیلئے عوامی بیداری ضروری ہے، لیکن کامیابی کیلئے اختیار اور اقدار تک رسائی بھی ضروری ہے۔ آزادی کے ساٹھ سے زیادہ سال گزر جانے کے بعد سماجی حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہو چکا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ نے عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کو بانداز دگر بیدار کردیا تھا۔ کرپشن کے خلاف اناہزارے کی ملک گیر تحریک انکے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود تھی۔ چنانچہ اروند گجری وال نے ”عام آدمی پارٹی“ بنائی تو سب سے پہلے بااختیار حلقوں تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے عوامی احتجاج کا طریق ہی اختیار کیا۔ انہوں نے دہلی میں بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کی خلاف مہم چلائی تو عوام نے ان کا پورا ساتھ دیا۔ انہی دنوں عورتوں پرتشدد کے متعدد واقعات کے علاوہ جبری زیادتیوں کی وارداتیں بھی میڈیا میں ”ہائی الرٹ“ کی گئیں، گجری وال پر امن معاشرے کیلئے انسانیت سوز جرائم کے خلاف سخت قوانین بنائے جانے کا تقاضا بھی کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ”عام آدمی پارٹی“ کو سیاسی رنگ دے دیا اور مارچ2013ءمیں اسے الیکشن کمیشن آف انڈیا میں ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت میں رجسٹر کروا لیا اور اسکے ساتھ ہی اس برس کے ریاستی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ بھی کرلیا۔ اس پارٹی کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ”جھاڑو“ کا انتخابی نشان دے دیا۔ ”جھاڑو“ صفائی کا بنیادی ”ہتھیار“ ہے اور یہ نچلے پست طبقے کا علامتی نمائندہ بھی ہے۔ کانگرس اور بی جے پی کے انتخابی نشانات کے برعکس ”عام آدمی پارٹی“ کے نشان (جھاڑو) نے انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی پیدا کی۔ چنانچہ اس نشان کا تذکرہ زبان زد خاص عام ہونے لگا تو اسے تضحیک کی نظر سے بھی دیکھا گیا۔
عوامی مسائل کی احتجاجی تحریکوں سے گجری وال نے جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے اپنی پارٹی کا منشور بنانے اور انتخابی عمل کیلئے امیدوار چننے میں ہوش مندی سے استعمال کیا اور ایسے امیدوار منتخب کئے جن کی دیانت پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا تھا اور جن کی قناعت پسندی سے حلقے کے لوگ شناسا تھے۔ انکے مخالفین نے منفی حربے استعمال کرکے گجری وال کے کارکنوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور ایسے ویڈیو جاری کئے گئے جن میں انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار سرمایہ داروں سے عطیات وصول کرتے نظر آتے تھے۔ اس قسم کا الزام جب اے، اے، پی کی ایک امیدوار شازیہ علی پر لگا تو انہوں نے انتخاب سے دستبردار ہو جانے کی پیشکش کردی لیکن انہیں ٹکٹ دے دیا گیا۔ کیونکہ ان کے خلاف جو ویڈیو جاری کیا گئی تھی وہ جعلی تھی۔
”عام آدمی پارٹی“ نے دہلی اسمبلی کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اور کانگرس اسی طرح زمیں بوس ہوگئی جس طرح پاکستان کے عام انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی تھی۔ ”عام آدمی پارٹی“ کی میابی میں مستقبل روشن اشارے موجود ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گجری وال اس پارٹی کو آل انڈیا سطح پر پھیلائیں گے اور 2014ءکے انتخابات میں مختلف مقامات سے اپنے امیدوار کھڑے کرکے انہیں خاص تعداد میں کامیاب بھی کرائیں گے اور اس طرح لوک سبھا میں ایک نئی جماعت اپنی فعال حیثیت میں شامل ہو جائےگی۔ اس نے دہلی حکومت سنبھالی تو وعدے کے مطابق فوری طور پر پانی فری اور بجلی کا بل نصف کر دیا۔ ”عام آدمی پارٹی“ کی یہ ابتدائی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ جب بڑی سیاسی پارٹیاں عوام کے بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات اور خاندان کو مضبوط کرنے لگیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جائے تو پھر عوام اپنے حقوق کیلئے متحرک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے اس قسم کا تغیر 1970ءکے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے پیدا کیا تھا۔ دوسری مثال عمران خان کی ہے جس کے پرہجوم جلسوں نے پاکستانی سیاست کی کایا پلٹ دی لیکن دونوں صورتوں میں منفی قوتیں زیادہ شاطر نکلیں۔ بھٹو کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا اور عمران خان کو ڈرون طیاروں کے حملوں اور دہشت گردی کا شکار ہونیوالے صوبے میں الجھا دیا گیا لیکن ”عام آدمی پارٹی“ کی جیت وزیراعظم نوازشریف کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوںکو عملی جامہ پہنانے میں مزید تاخیر نہ کریں اور بہبودی عوام کے کاموں کو فوری طور پر زیر عمل لائیں۔