اسلام آباد (فصیح الرحمن خان/ دی نیشن رپورٹ) 3نومبر 2007ء کو لگائی گئی ایمرجنسی سے خود کو علیحدہ کرنے کے لئے سابق وزیراعظم شوکت عزیز ان دنوں اپنی خود نوشت سوانح عمری کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں اور توقع ہے کہ یہ آئندہ چند ہفتوں تک منظرعام پر آ جائیگی۔ باخبر ذرائع کے مطابق کتاب کے اہم حصے لندن کے پبلشر شائع کرینگے جس میں ان کی وزارت عظمیٰ کے دور کے واقعات اور خصوصاً 2007ء کے آخری مہینے کا ذکر شامل ہو گا جبکہ اس وقت کے فوجی حکمران نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اسی معاملے پر مشرف کو غداری کے کیس کا بھی سامنا ہے۔ مشرف اور ان کے وکیل بارہا کہہ چکے ہیں کہ سابق فوجی حکمران نے 3نومبر کا اقدام اکیلے نہیں کیا بلکہ اس دور کے وزیراعظم اور انکی کابینہ کے مشاورت کے بعد کیا تھا۔ مگر شوکت عزیز اور اس دور کے اعلیٰ سول حکام ایمرجنسی کے الزام کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مشرف کے نہایت قریبی حلقوں نے کیا۔ شوکت عزیز کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ وہ ایمرجنسی کے وزیراعظم تھے مگر ایسے واقعات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھے۔ یہ سب معاملات مشرف کی مضبوط گرفت میں تھے مشرف کے قریبی ساتھی شوکت عزیز کو محض ربڑ سٹیمپ سمجھتے تھے۔ شوکت عزیز کو عمومی طور پر ہدایات طارق عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید سے ملا کرتی تھیں اس کے علاوہ اہم امور پر ملٹری ایجنسیوں کے سربراہوں سے انہیں ہدایات ملتی تھیں۔ طارق عزیز کے قریب رہنے والے ایک سابق سول بیورو کریٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر دی نیشن کو بتایا کہ طارق عزیز مشرف دور میں اس قدر طاقتور تھے کہ وہ اس وقت کے وزیر خارجہ کو تحریری ہدایات دیا کرتے تھے ان کے مطابق شوکت عزیز کو امریکیوں سے مضبوط تعلقات کی بنا پر آگے لایا گیا تھا اس کے علاوہ طارق عزیز اور ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود انہیں مشرف کے اہم ساتھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم تاج اور چودھری شجاعت کی فیملی کی بھی ٹھوس حمایت حاصل تھی مگر شوکت عزیز وزارت عظمیٰ کے پورے دور میں مشرف کی خواہشات کے تابع عمل کرتے رہے۔ شوکت عزیز نے اب لندن میں رہائش اختیار کر رکھی ہے اس وقت وہ ہانگ کانگ، برونائی ایسے ممالک کو سرمایہ کاری کے حوالے سے مشاورت فراہم کر رہے ہیں وہ خلیجی ممالک کے شہزادوں کے ساتھ دیرینہ رفاقت کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔