اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی اصل ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں، 2014ء کے اواخر تک حکومتی اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈال تک پہنچ جائیں گے اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 8.4ارب روپے رہ گئے ہیں، آئندہ 6 ماہ میں مختلف مالیاتی اداروں سے 10ارب روپے قومی خزانے میں آجائیں گے، 2 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں واپس چلے جائیں گے، 1999ء میں پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے 2946ارب روپے تھے جو 2013ء میں 15ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میںروپے کی قدر میں اضافہ ہو گا، وفاقی حکومت نے 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کر دیا ہے لیکن 225ارب روپے کا مزید گردشی قرض سر پر کھڑا ہے، گردشی قرضوں کی ادائیگی سے سالانہ 54 ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے، حکومت نے گردشی قرض کی ادائیگی کے لئے نوٹ نہیں چھاپے بلکہ مختلف وسائل سے گردشی قرض کی ادائیگی کی ہے، نئے نوٹ چھاپ کر گردشی قرض کی ادائیگی کا تاثر درست نہیں، حکومت نے ابتدائی پانچ ماہ میں 206 ارب روپے کے نوٹ چھاپے ہیں، نئے نوٹ چھاپ کر ترقی کرنے والے ملک تباہ ہو جاتے ہیں، بجلی کے نئے منصوبے شروع ہونے سے ہماری حکومت کی مدت کے خاتمے تک 36 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی، پاکستان نے اپنی عزت بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا۔ انہوں نے یہ بات وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملکی معیشت پر بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔ بریفنگ کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لئے حکومتی اخراجات کم کر کے 135 ارب روپے کی بچت کی گئی 128 ارب روپے کے بانڈز جاری کئے گئے۔ حکومت نے پہلے پانچ ماہ میں بجٹ خسارے میں کمی کی ہے۔ موثر فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا، کسی ملک کی معیشت ایک دن میں خراب یا بہتر نہیں ہوتی، ہم بجٹ کا مالی خسارہ 8.8 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد تک لے آئے ہیں، بجٹ خسارہ 8 فیصد سے بڑھ جائے تو ملک ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور وزراء کے صوابدیدی فنڈ ختم کر دئیے ہیں۔ بیرون ملک سفارتخانوں میں 60دن میں 2 ارب روپے سالانہ بچت ہو گی، لوڈشیڈنگ نہروں میں بھل صفائی مہم کے باعث ہے ، پن بجلی کے دو منصوبوں میں سے ایک حکومت اپنے وسائل سے مکمل کرے گی، سرکلر ریلوے کے لئے آسان شرائط پر قرضے کے حصول کی خاطر جاپان سے بات چیت آخری مراحل میں ہے، گردشی قرضے ادا کرنے کے لئے نوٹ چھاپنے کا تاثر درست نہیں۔ نئے نوٹ چھاپ کر ترقی کرنے والے ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔ 435 ارب روپے کا ٹیکس ادا نہ ہو نے کے باعث مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت بجٹ خسارہ قومی پیداوار کے چار فیصد تک لائے گی، موثر فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔گزشتہ سال مہنگائی کا تناسب 7.4 فیصد تھا۔ ہماری حکومت بجٹ خسارہ 8.8 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد تک لے کر آئی۔ گزشتہ 5 ہفتوں سے مہنگائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔گزشتہ سال صنعتی ترقی 0.4 فیصد تھی، ہمارے ابتدائی چھ ماہ میں صنعتی ترقی 6.8 فیصد تک جا پہنچی۔ گزشتہ حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی۔گردشی قرضوں کی ادائیگی سے سالانہ 54 ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے اگر گردشی قرضہ ادا نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کا گردشی قرضہ 368ارب روپے مزید بڑھ چکا ہوتا۔ گردشی قرضہ60کے بجائے 45 دنوں میں ادا کیا جس کے باعث 1700 میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل ہوئی۔ حکومت نے وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کا صوابدیدی فنڈ ختم کر دیا ہے۔ گزشتہ 5 سال میں معیشت کی صورتحال انتہائی خراب ہو گئی تھی۔ 2007ء کے عالمی معاشی بحران سے نکلنے کے لئے دنیا کو پانچ سال لگ گئے۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملکی مجموعی پیداوار3 فیصد تھی گزشتہ سال پاکستان میں کم ترین 12.6فیصد سرمایہ کاری ہوئی۔ بجٹ کا مالی خسارہ 8.8 فیصد تھا جسے ہم کم کر کے 8 فیصد تک لائے۔ 1999ء میں مجموعی ملکی قرضے 2946 ارب روپے تھے جبکہ یہی قرضے 2013ء میں 15ہزار ارب روپے تک جا پہنچے تھے۔ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں 40 فیصد جبکہ وزارتوں کے اخراجات میں 30 فیصد کمی کی۔ خود مختار اداروں کو 45 دن میں تمام غیر ضروری اخراجات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ بیرون ملک سفارتخانوں میں 60 دن کے اندر بچت سے 2 ارب روپے سالانہ بچت ہو گی۔ 1999ء میں وی وی آئی پی گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد بند کر دی تھی لیکن بدقسمتی سے 2005ء میں پھر سے شروع کر دی گئی۔ حکومت نے ابتدائی پانچ ماہ میں صرف 206ارب روپے کے نوٹ چھاپے ہیں۔ گردشی قرضہ ادا کرنے کے لئے نوٹ چھاپنے کا تاثر بالکل غلط ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے سبب اندرونی اور بیرونی سر مایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا، ذمہ دار ملک کی طرح بروقت بیرونی قرضے ادا کریں گے۔آئندہ سال جون تک آسان شرائط پر مزید ایک ارب ڈالر قرضہ لیں گے، مالیاتی خسارے کا تخمینہ 250 ارب روپے لگایا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی تفصیلات اسی روز جبکہ گردشی قرضوں کی تفصیلات بھی ویب سائیٹ پر ڈالی جا چکی ہیں۔ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے سے 2 ارب ڈالر تک بر آمدات میں اضافہ ہو گا، اتصالات سے بھی800 ملین ڈالر جلد ملنے کی توقع ہے۔ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر کی امدادی رقم بھی ملے گی ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان میں کم ترین 12.6فیصد سرمایہ کاری ہوئی، موجودہ لوڈشیڈنگ نہروں میں بھل صفائی مہم کے باعث ہے ، پن بجلی کے دو منصوبوں میں سے ایک منصوبہ حکومت اپنے وسائل سے مکمل کرے گی۔ سرکلر ریلوے کے لئے آسان شرائط پر قرضے کے حصول کی خاطر جاپان سے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ بجلی کے 200 یونٹ کے گھریلو صارفین کے لئے حکومت نے 220 ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے جس میں سے 131ارب روپے کی سبسڈی جاری کی جا چکی ہے۔ گزشتہ حکومت نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے تخمینہ کی تختی تو لگا دی لیکن منصوبے کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ حکومت نے سماجی تحفظ کے لئے مستحق افراد کے لئے 75 ارب روپے مختص کئے ہیں، لیپ ٹاپ سکیم کے تحت ایک لاکھ لیپ ٹاپ طلبہ و طالبات میں تقسیم کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف لیپ ٹاپ سکیم کا افتتاح مارچ میں کریں گے۔ ہماری حکومت نے اشیائے خوردونوش پر 17 ارب 60 کروڑ روپے کی سبسڈی دی، ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری پرقیمت میں 500روپے کمی کی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایات پر پاکستان میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے لئے کمیٹی قائم کر دی ہے، دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کا حجم 16 کھرب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا نگران حکومت نے معیشت میں سیاست کا استعمال کرکے اسے نقصان پہنچایا، آئندہ سال جون تک آسان شرائط پر مزید ایک ارب ڈالر قرضہ لیں گے۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہاکہ قیمتوں میں اضافہ حکومت کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ اس کی بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنا ہے، ریونیو کا ہدف پورا نہ ہونا اور ذخیرہ اندوزی ہے۔ اس کی اصل ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں جو منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی پر قابو نہیں پا سکیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے مجسٹریسی نظام لانے کا منصوبہ ہے، سپلائی سسٹم میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بجلی پر 30ارب روپے سبسڈی دیگی۔ جو مجموعی طور پر مختص 220ارب روپے کے مقابلے میں موجودہ سال کے دوران 131ارب روپے تک پہنچ جائیگی۔ واجبات کی وصولی مسئلہ ہے اور حکومت ڈسکوز کو پرائیویٹائز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے انہیں انکی ’’بک ویلیو‘‘ کے مطابق صوبوں کے حوالے کرنے کی آپشن بھی ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 435 ارب روپے کا ٹیکس ادا نہ ہونے کے باعث مہنگائی بڑھی، بجٹ خسارہ قومی پیداوار کے 4 فیصد تک لائیں گے، ذمہ دار ملک کی طرح بروقت قرضے ادا کریں گے۔ معیشت کی خرابی سے گزشتہ سال صرف 12.6 فیصد تک سرمایہ کاری ہوئی تاہم موجودہ معاشی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری میں بہتری کے امکانات ہیں۔ صنعتی ترقی 6.8 فیصد تک ہوگئی، لوڈشیڈنگ کافی حد تک کم ہوئی، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔ 2014ء میں مختلف ذرائع سے 10 ارب ڈالر ملیں گے۔ اس سال ڈالر 100 روپے سے نیچے آجائیگا۔ 2013ء میں انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے ملک کی اقتصادی و سماجی ترقی کیلئے پائیدار اقتصادی ترقی کی پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ حکومت نے تین سالہ روڈ میپ تشکیل دیا ہے تاکہ وسط مدتی اہداف حاصل کئے جاسکیں جس کے تحت جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 تا 7 فیصد، انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 8.5 فیصد سے 13 فیصد تک بڑھایا جائیگا۔