وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے مولانا سمیع اُلحق کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ مولانا بھی بہت خوش ہیں۔ میاں نواز شریف مرزا غالب کی طرح شاعر نہیں ہیں کہ جنہوں نے کہا تھا۔
”جی خوش ہُوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر“
میاں صاحب تو، اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی خواہش مند رہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہو اور وہ انہیں دہشت گردی چھوڑنے پر آمادہ کر لیں یعنی ”سیدھی راہ پر لے آئیں گے لیکن کیا کِیا جائے کہ طالبان اور اُن کا ہر پیش امام پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے مسلمان کو راہ گُم کردہ جانتا اور مانتا ہے اپنے آخری دور میں صدر ایوب خان نے ننھی مُنّی سیاسی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی (جِسے ٹانگہ پارٹی بھی کہا جاتا تھا) کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے قائدین سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کا فریضہ سونپا تھا، پھر نوابزادہ صاحب خُود بھی ٹیم کے رُکن بن گئے۔ مذاکرات کامیاب تو ہو گئے تھے لیکن نہ جانے کیا ہُوا کہ صدر ایوب چیف آف آرمی سٹاف کو اقتدار سونپ کر گھر بیٹھ گئے۔ پھر ہر دور میں نوابزادہ نصر اللہ خان کو حکومت اور حزبِ اختلاف اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں مذاکرات کرانے کی ”عادت“ پڑ گئی اور ”بابائے مذاکرات“ کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کے سیاسی روّیے میں لچک بہت تھی وہ اساتذہ کے رنگ میں شعر بھی کہتے تھے، مولانا سمیع اُلحق اپنی دھُن کے پکّے ہیں اپنے مو¿قف سے رتّی بھر اِدھر اُدھر نہیں ہوتے لیکن شعر و شاعری سے اُن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے حکومت اور طالبان کے مذاکرات شروع ہونے میں نہیں آرہے، لیکن مولانا سمیع اُلحق اِس سے پہلے ہی ”بابائے طالبان“ کہلاتے ہیں۔ اِس لحاظ سے وزیرِ اعظم نے مولانا صاحب کو، حکومت اور طالبان میں ثالثی کرانے کے لئے نہیں کہا بلکہ اُن سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی درخواست کی ہے۔ثالث یا۔” پنچ“۔بننے کی نہیں۔وزیرِ اعظم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد مولانا سمیع اُلحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے وزیرِ اعظم سے اپنی ملاقات کو مثبت قرار دیا، لیکن یہ بات زور دے کر کہی کہ ”حکومت ِ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔حکومتِ پاکستان ڈرون حملے بند کرانے کے لئے امریکہ پر دباﺅ ڈالے، کم از کم جب حکومت اور طالبان میں مذاکرات ہو رہے ہوں“
وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت صدر اوبامہ اور اُن کی انتظامیہ سے ڈرون حملے بند کرنے کے لئے کئی بار گذارش کر چکی ہے لیکن اُن کی طرف سے صاف انکار ہے۔ واحد سُپر پاور اپنی خارجہ یا جارحانہ پالیسی بھلا کسی مُلک کے وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت اُس مُلک میں سرگرم ِ عمل دہشت گردوں کی خواہش پر عمل کیوں کرے گی؟۔اب کرلو جو کرنا ہے۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور مولانا سمیع اُلحق کی ملاقات سے ایک روز قبل وزیرِ اعظم کی صدارت میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد (جِس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے)۔وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا گیا کہ معصوم شہریوں اور فوجیوں پر دہشت گردوں کے حملے برداشت نہیں کئے جائیں گے اور اِس سِلسلے میں سِول اور عسکری قیادت یکجا ہے“۔ اِس سے قبل 12نومبر 2013ءکو جی ایچ کیو کا دورہ کر کے، وزیرِ اعظم نواز شریف نے پاک فوج سے اظہارِ یک جہتی کا اعلان کرتے ہُوئے کہا تھا کہ”پاک فوج کے شہید اور غازی ہمارے مُحسن ہیں۔فوج کے افسران ہمارے کل کے لئے اپنا آج قُربان کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شُہدا ہمیشہ یاد رہیں گے“۔
وزیرِ اعظم نواز شریف کو۔ پاک فوج سے اظہارِ یک جہتی کا اظہار کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ امیرِ جماعت اسلامی سیّد منور حسن نے 8ہزار فوجی افسروں اور جوانوں اور 42ہزار معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ”امریکی مفادات کے لئے لڑتے ہُوئے، پاک فوج کے افسران اور جوان اگر اپنی جان دے دیں تواُ نہیں”شہید“ نہیں کہا جاسکتا“۔ سیّد منور حسن کے اِس بیان نما فتوے پر، پاک فوج کے شعبہ اطلاعات آئی ایس پی آر کی طرف سے سخت غم و غُصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ اِس سے قبل جمعیت عُلماءاسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ”امریکی حملے میں مارے جانے والے کُتّے کو بھی”شہید“ کہا جائے گا“۔پُرانے دَور میں عُلماءصِرف فتوے دیتے تھے لیکن آج اُن کے پاس اپنے فتووں پر عمل در آمد کرانے کی قوت بھی موجود ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں کہ طالبان کے بارے میں جمعیت عُلما ءاسلام کے دونوں گروپ جماعتِ اسلامی اور دوسری کئی مذہبی جماعتیں نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ جناب عمران اگرچہ عُلماءمیں شُمار نہیں ہوتے لیکن اُن کے” کمالِ طالبان نوازی“کی وجہ سے اُنہیں طالبان خان کہا جاتا ہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروپ پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو نہیں مانتے اور مُلک میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ طالبان اور اُن کے ہم خیال گروپ راہِ راست پر آجائیں، بھلا یہ کیسے مُمکن ہے کہ وہ آئین اور جمہوریت کا بستر گول کرنے والوں کے دباﺅ میں آجائیں۔ اکتوبر 2013کے اوائل میں، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے اور اُس کے بعد بھی وزیرِ اعظم نواز شریف کئی بار اپیل کر چُکے ہیں کہ”مذاکرات سے پہلے طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروہ ہتھیار پھینک دیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کر لیں۔
وزیرِ اعظم نواز شریف جمہوری عمل کے ذریعے تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہُوئے ہیں اور پاکستان بھی جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا تھا جو مذہبی جماعتیں جمہوری عمل کے ذریعے،پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل نہیں کر سکتیں اُن کے لئے جمہوری عمل سے مُکرنا اور اُس کے خلاف فتویٰ دینا آسان ہے۔ طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپ تو جمہوری عمل پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ پھر اُن سے مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے مولانا سمیع اُلحق کیا کردار ادا کر سکیں گے؟۔ خارجہ پالیسی تبدیل کرنا پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کا استحقاق ہے طالبان کا نہیں اور نہ ہی اُن کے”رُوحانی والد صاحب “کا میرا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور عسکری قیادت نے آخری آپشن کے طور پر مولانا سمیع اُلحق کو مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنے کا ٹاسک دے کر”اِتمامِ حُجّت“ کیا ہے۔ اُس کے بعد آپریشن۔