چشمہ (عترت جعفری) پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے کہا ہے کہ 2030ء تک ملک کے اندر 1100 میگاواٹ کے سات پلانٹ لگائے جائیں گے جبکہ 2015-16ء کے بعد ہر ایک یا دو سال کے اندر ایک ایٹمی بجلی گھر لگنا شروع ہو جائے گا۔ اس وقت ملک میں ایٹمی بجلی 7 سے8 روپے فی یونٹ میں تیار کی جا رہی ہے‘ چشمہ سی ٹو اور تھری کے بعد 300 میگاواٹ کا مزید کوئی نیو کلیئر پاور پلانٹ نہیں لگایا جائے گا۔ نئے نیو کلیئر پاور پلانٹس کو میزائل کے حملہ سے محفوظ رکھنے کے لئے اضافی شیلڈ بھی نصب کی جا رہی ہے‘ چین کے ساتھ سول نیوکلیئر تعاون جاری رہے گا‘ امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے اس شعبہ میں تعاون ملنے کی ابھی توقعات نہیں ہیں‘ نیوکلیئر بجلی گھر طویل المیعاد بنیاد پر لینے پڑتے ہیں۔ انصر پرویز نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں اخبار نویسوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انصر پرویز نے کہا 2003ء چشمہ ون اور ٹو کام کر رہے ہیں جبکہ چشمہ تھری اور فور 2016ء سے بجلی دینا شروع ہو جائیں گے جبکہ اب ملک کے اندر 300 میگاواٹ طاقت کے ایٹمی بجلی گھر مزید نہیں لگائے جائیں گے‘ ملک کے اندر ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب کے لئے سائٹ کا انتخاب ایک نازک معاملہ ہوتا ہے اس لئے موجودہ دستیاب سائٹ کا زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کرنے کے لئے آئندہ 1100 میگاواٹ قوت کے پلانٹ لگائے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں کراچی میں کے ون اور کے ٹو پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے اور 2030ء تک ان پلانٹس سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی کا حصول ہدف ہے۔ کراچی کے کینوپ پلانٹ کی زندگی 2002ء میں ختم ہو گئی تھی 2 سال کے بعد 2004ء میں اسے دوبارہ چلایا گیا اس پلانٹ کی بجلی کے 4.7 بلین روپے اب بھی کے ای ایس سی کے ذمہ ہیں‘ ملک میں اس وقت بجلی کی جتنی صلاحیت ہے اگر اس کا 80 فیصد استعمال ہو جائے تو لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔انہوں نے کہا ملک میں اس وقت جتنے ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں، ان کی آمدن سے مرمت کا کام‘ قرضوں کی واپسی اور دوسرے اخراجات پورے کئے جا رہے ہیں۔ چشمہ تھری اور چشمہ فور کی مجموعی پیداواری صلاحیت 630 میگاواٹ ہے اور دونوں پلانٹ 2016ء تک بجلی دینا شروع کر دیں گے۔ وزیراعظم نے 2050ء تک 40 ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی ذرائع سے حاصل کرنے کی منظوری دی ہے۔ چیئرمین ایٹمی توانائی کمشن نے کہا کہ پاکستان پر پابندیاں ہیں‘ امریکہ ہمیں نیو کلیئر پاور پلانٹ نہیں دے گا اور ہمیں اس سے زیادہ توقعات بھی نہیں ہیں۔ کوئلہ سے بجلی کے حوالے سے مغربی ممالک یا عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ ایسا ہے کہ جب ہمارے کھیلنے کا وقت آیا تو قواعد بدل دئیے گئے۔ جب ترقی پذیر ممالک کوئلے سے بجلی بنانا چاہتے ہیں تو پروٹول تبدیل کر دئیے گئے۔ ایٹمی بجلی کسی بھی ذریعے کا متبادل نہیں ہے۔ بجلی پانی‘ کوئلہ یا متبادل انرجی کے تمام ذرائع استعمال کرکے حاصل کرنا چاہئے‘ 2050ء میں جب 40 ہزار میگاواٹ بجلی تیار ہو گی تب بھی کل توانائی کی ضروریات کا محض 16 فیصد ہو گی۔ پاکستان کے پلانٹ آئی اے ای اے کے تحت ہیں۔ ٹیمیں معائنہ کے لئے آتی رہتی ہیں۔ ملک کے اندر بجلی کی کمی دور کرنے کے لئے 10 سے 12 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔