ملٹری کورٹس اور وائٹ کالر کرپشن

2013ء کے انتخابات سے بھی پہلے میاں محمد نواز شریف کو اس بات کا مکمل احساس تھا کہ عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد کسی بھی نو منتخب وزیر اعظم کی پہلی ترجیح ملک میں امن و امان اور قومی یکجہتی کی فضا کو قائم کرنا ہونی چاہئیے۔ چونکہ ملک کے اندر پُر امن ماحول کے بغیر معاشی خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، جان و مال کے تحفظ کے بغیر باہر کے کسی سرمایہ کار کی ملک میں سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے ریاست کے اندر بھی کاروباری طبقہ کسی بھی بڑی investment کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکز میں حکومت کے قیام کے بعد قومی یگانگت کے ہدف کے حصول اور دہشتگردی کے کینسر کا مو ثر طریقے سے مقابلہ کرنے کیلئے وزیر اعظم نے ایک حکمت کے تحت کچھ اہم اقدامات کئے۔ پہلا یہ کہ خیبر پختون خوا میں ایک ایسی پارٹی کو حکومت بنانے کو کہا گیا جس کے قائد کی یہ قابل تحسین سوچ تھی کہ دہشتگردی کو اگر مذاکرات سے ختم کر لیا جائے تو یہ ملک کے مفاد میں ہو گا۔ عمران خان اپنی سیاسی بصیرت سے طالبان کو راہ راست پر لانے کے متمنی تھے اور طالبان عمران خان کی اسی سوچ کے قدر دان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ حکومت سے مذاکرات کرتے وقت عمران خان طالبان کی نمائندگی کریں۔ بدقسمتی سے یہ حکمت عملی کامیاب تو نہ ہو سکی لیکن حکومت نے اپنی طرف سے خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کی راہ ہموار کر کے اپنی طرف سے امن کے ماحول کی پہلی کاوش کر ڈالی۔ بالکل اسی طرح بلوچستان میں اپنی جماعت کے سرکردہ قائدین کو ناراض کر کے بھی حکومت کی باگ ڈور بلوچی سرداروں کے نہیں بلکہ عام لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی، یہ بھی ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ تیسرا قدم جو ملک کو دہشتگردی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ضروری سمجھا وہ کراچی میں متعلقہ جماعتوں کے تعاون سے رینجرز اور پولیس کی مدد سے ایک آپریشن کی منصوبہ بندی تھی جس کی وجہ سے ٹارگٹ قتال میں بہت کمی آئی۔ اسکے بعد چوتھا قدم یہ اٹھایا گیا کہ تحفظ پاکستان قانون سب جماعتوں کی رضا مندی سے پاس ہوا اور اسی پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا، خصوصاً کراچی میں بہت سارے قاتل قانون کی گرفت میں آ گئے۔ پانچواں اور سب سے اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ وزیر اعظم نے ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد حکومت پاکستان کے پاس اب ملٹری آپریشن کے سواکوئی چارہ نہیں۔ اس پر افواج پاکستان اور ساری سیاسی جماعتوںنے حکومتی فیصلے کی تائید کی۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب دہشتگردوں نے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا۔ چھٹا فیصلہ یہ کیا گیا کہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ عدم اعتمادی کی فضا کو ختم کیا جائے تاکہ دونوں ملک مل کر دہشتگردی کا مقابلہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے حوصلہ افزا جواب ملا اور دہشتگردوں کو افغانستان سے وہ امداد ملنی ختم ہو گئی جو حامد کرزئی کے وقت میسر تھی۔ پشاور میں آرمی سکول کے معصوم بچوں پرحملے کے بعد وزیر اعظم نے فوراً سزائے موت پر پابندی ختم کر دی اور ایک کل جماعتی کانفرنس بھی بلائی جس میں بہت اہم فیصلے ہوئے جن میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ 20 نکات کی منظوری دی گئی جس کیلئے پندرہ کمیٹیاں بنا دی گئیں۔ جنہوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا لیکن کل جماعتی کانفرنس میں افواج پاکستان کی تجویز پر ساری جماعتوں نے اس لئے اتفاق کیا چونکہ پاکستان مشکل ترین اور غیر معمولی حالات سے دو چار ہے اس میں غیر معمولی اقدامات اٹھانا ضروری سمجھا گیا۔
قارئین آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے غیر معمولی حالات کیا ہیں۔ اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جس کے ایک مشکل ترین پہاڑی علاقے میں 50 لاکھ ایسے قبائل بستے ہوں جن پر انگریزوں جیسی سپر طاقت بھی اپنی رٹ قائم نہ کر سکی ہو اور جہاں ریاست کی ہائی اور سپریم کورٹ کے احکامات نہ چل سکتے ہوں، جو ایسی سرحد کے ساتھ واقع ہو جو برائے نام ہو۔ دوسرا یہ کہ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جس کو آزادی سے لیکر اب تک مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کی طرف سے بیرونی خطرات نے گھیر رکھا ہو۔ تیسرا یہ کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جس کا کشمیر جیسا اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر قدیم ترین حل طلب مسئلہ ہو جس کی وجہ سے چار جنگیں ہو چکی ہوں اور دشمن پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو ۔چوتھا یہ کہ دنیا کے 196 ممالک میں سے شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو بیرونی طاقتوں کے قبضے میں تو نہ ہو پھر بھی اس کے 60000 معصوم شہری دہشتگردی کی نذر ہو گئے ہوں۔ پانچواں یہ کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا مہذب ملک ہو جس میں ایسے مسلح لشکر موجود ہوں جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہ ہو۔ قارئین اس ساری گھمبیر صورت حال کی وجہ ماضی کی کمزور حکمرانی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ Investigation، Prosecution اور نتیجتاً Justice تینوں مراحل پر زبردست کمزوریاں ہیں جن کی بدولت قاتل لاشوں کے انبار لگا چکے ہیںمگر ان کو تختہ دار پر لٹکانے والا کوئی نہیں۔ اس کا ایک حل تو مارشل لاء ہے مگر اس سے ملک 50 سال پیچھے چلا جائیگا اس لئے موجودہ صورتحال میں بہترین حل Sun Set  کلاز کے ساتھ دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ خواجہ نوید احمد جو کریمنل کیسز کے ماہر مانے جاتے ہیں اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں، نے ملٹری کورٹس کی پر زور حمایت کی ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ملٹری کورٹس اپنے سینئرز کے اشاروں پر چلتی ہیں۔ ان کورٹس میں سزا پانے والوں میں ایڈمرل منصور، جنرل عباسی، جنرل تجمل اور جنرل اکبر جیسے بہت سارے سینئر لوگ بھی تھے۔ یہ عدالتیں تین قسم کی ہوتی ہیں۔ 1 سمری ملٹری کورٹ جس میں چھوٹے مقدمات میں صرف ایک آفیسر مقدمہ سنتا ہے اور معمولی سزا دیتا ہے۔ 2 سپیشل کورٹ جس میں ملٹری جج پراسی کیوشن اور ڈیفنس کے علاوہ تین مزید رکن ہوتے ہیں۔ یہ عدالت زیادہ سے زیادہ ایک سال کی سزا دے سکتی ہے 3۔ جنرل کورٹ مارشل میں ملٹری جج پراسی کیوشن، ڈیفنس کے علاوہ 5 مزید عدالتی رکن ہوتے ہیں۔ یہ عدالت سزائے موت بھی دے سکتی ہے جبکہ مجرمان کو اپیل کا حق ہوتا ہے جس کا Jag برانچ اور چیف آف آرمی سٹاف فیصلہ کرتے ہیں۔
قارئین آپ ضرور اس بات سے اتفاق کرینگے کہ آج جس بدترین صورتحال میں ہم گھرے ہوئے ہیں، اسکے ذمہ دار نالائق، کمزور اور کرپٹ ترین ماضی کے حکمران ہیں۔ کسی نے دولت سمیٹنے کیلئے اور کسی نے اپنے اقتدار کو بچانے اور اس کو طول دینے کیلئے کرپشن کی۔ ایک دہشتگرد ایک وقت میں درجنوں بندے ہلاک کرتا ہے لیکن ایک کرپٹ اور لالچی حاکم مختصر مدت میں پورے معاشرے کو کنگال کر جاتا ہے اس لئے میرے خیال کرپشن بھی قتال کی ایک زیادہ گھنائونی دوسری شکل ہے۔ اگر معاشرے کے چند نام نہاد معتبروں کے خلاف یہ ثابت ہو جائے کہ قوم نے ریاست کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں امانت کے طور پر دیا لیکن یہ صادق رہے نہ امین اور ریاستی تجوری کو چاٹ گئے پھر موجودہ عدالتی نظام میں اپنے مقدمات عشروں تک حل نہ ہونے دیئے۔ اپنی مرضی کے ججوں کے پینل بنوائے گواہوں کو مروا دیا تو پھر کیا ان لوگوں کے مقدمات کیلئے ملٹری کورٹس نہیں ہونی چاہئیں۔ یاد رہے کہ چین جیسے ملک میں میگا کرپشن سکینڈل میں ملوث بڑے بڑے اداروں کے سربراہ اور حکمران جماعت کے سیاسی لیڈر بھی تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے۔ جسٹس خواجہ نوید نے جو ملک کے موجودہ نظام عدل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہی کہا ہے کہ دہشتگرد قاتلوں کو اگر سیدھا لٹکایا جاتا ہے تو کرپشن کرنے والے کو الٹا لٹکایا جائے۔ ان کو اس بات کا شاید ادراک ہے کہ سارے دہشتگرد مارنے کے بعد بھی اگر معاشرے میں بدترین وائٹ کالر کرپشن کا خاتمہ نہ ہوا تو کمزور حکمرانی کی بدلت Investigation،Prosecutionاور Justice کے معیار بہتر نہیں کئے جا سکتے اس لئے ملٹری کورٹس کو میگا کرپشن کیسز بھی سن کر فوری فیصلے کرنے چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن