پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکا رہے ہم یہ عذاب تب سے جھیل رہے ہیں جب سے ضیا الحق نے صرف اپنی حکومت کو دوام دینے کیلئے امریکہ کیلئے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کیا اور پورے ملک سے نوجوانوں کو جہاد کے نام پر دہشتگردی کی آگ میں لاجھونکا، ضیا دور میں لگایا جانیوالا دہشتگردی کا پودا آج تناور درخت بن کر ہمارے سامنے ہے اور پشاور ملٹری پبلک سکول میں سینکڑوں معصوم بچوں کو خون میں نہلانے ایک خاتون ٹیچر سمیت دو خواتین کو زندہ جلانے اور شرف انسانیت کے ہر تقاضے کو خاک میں ملانے والی سفاکانہ دہشتگردی کی واردات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دہشتگردی کی المناک داستانیں نہ جانے کب تک ہمیں رلاتی رہیں گی۔ مگر اب محض رونے دھونے کا نہیں، عزم صمیم کے ساتھ اس سرزمین سے دہشتگردی کی ہر نرسری کی جڑیں کاٹنے کا وقت ہے تاکہ ہماری نئی نسلوں کو دہشتگردی کی کربنا کیوں سے بچایا جاسکے۔ اسلسلہ میں وزیراعظم نواز شریف نے بروقت اور مثبت اقدامات اٹھائے ہیں اور اپوزیشن کے قائدین سمیت تمام قومی سیاسی، دینی قائدین نے وزیراعظم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر کے ان اقدامات کی تائید کی ہے تو اب قوم ان اقدامات کو عملی جامہ پہنائے جانے کی منتظر ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف دہشتگردی کے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے۔جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سکیورٹی فورسز کا سوال، مالاکنڈ سمیت جنوبی وزیرستان آپریشن شروع ہوا تو مولوی فضل اللہ اور اسکے ساتھی دوسرے دہشتگردوں نے فرار ہو کر افغانستان میں ہی پناہ لی جو اس وقت سے اب تک وہاں محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے دہشتگردی اور خودکش حملوں کی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے اور معصوم و بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کی جانیں لینے میں مصروف ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو اس کالعدم تنظیم کا میر بنایا گیا تو وہ افغانستان سے پاکستان آکر ہی طالبان شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوا تھا جس کے بعد وہ واپس افغانستان چلا گیا اور وہیں سے ٹی ٹی پی کی کمان سنبھالے ہوئے ہے، جسکی زیرنگرانی اب تک ہماری سرزمین پر فوجی کانوائے پر حملوں کے ساتھ ساتھ نیول ڈاکیارڈ کراچ، کراچی اور پشاور ایئرپورٹس، واہگہ بارڈر لاہور اور پشاور ملٹری پبلک سکول میں سفاکانہ دہشت گردی کی گھنائونی وارداتیں ہو چکی ہیں جن میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں بے گناہوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا چکا ہے۔پاکستان تو اب آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں کیخلاف کارروائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا اور گزشتہ روز بھی خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز کی بمباری سے 57دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب کی نگرانی خود سنبھالی ہے اور اس وقت وادی تیرہ میں بھی زمینی دستوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ روز کے اعلان کے بعد موت کی سزا پانے والے دہشتگردوں کو پھانسی پر لٹکانے کیلئے قانونی اور عدالتی عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور گذشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ناصر الملک نے اعلیٰ عدلیہ کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کرکے سزائے موت پر عملدر آمد کے پراسس کو تیز کرنے کیلئے ضروری اقدامات کی ہدایت جاری کردی ہیں جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ مختلف جیلوں میں سزائے موت کا منتظر دہشت گردوں کو آئندہ ایک دو روز تک پھانسی پر لٹکانے کا سلسلہ شروع ہو جائیگا جس سے یقینا دہشت گردوں پر اپنے قبیح جرائم کی سزا کا خوف طاری ہوگا۔ پاکستان تو یقینا پورے خلوص اور ثابت قدمی کیساتھ دہشتگردی کا ناسور جڑ سے کاٹنے کے اقدمات میں عملی طور پر مصروف ہے جس کا اسے جوابی دہشتگردی میں اپنے بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کی جانوں کی قربانیوں کی صورت میں خمیاز بھی بھگتنا پڑ رہا ہے تاہم جب تک افغان سرزمین پر دہشتگردوں کی مکروہ سرگرمیاں نہیں روکی جاتیں اور مولوی فضل اللہ کو اسکے ساتھیوں سمیت پاکستان کے حوالے نہیں کیا جاتا، یہ دہشتگرد ہمیں زخم لگاتے ہی رہیں گے۔ انسانیت کی بقاء کیلئے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہی وقت کی ضرورت ہے جس کیلئے تمام عالمی قیادتوں کو یکسو ہونا ہوگا۔