خاکسار نے ایف بی آر کے افسران سے دریافت کیا کہ وہ اپنے تئیں انٹیلی جنس، پولیس، نیب یا ایف آئی اے افسر، چارٹرڈ اکاونٹنٹ ، کاروباری شخص ، پراسکیوٹر یا جج میں سے کیا سمجھتے ہیں؟ کسی نے غضبناک پولیس یا نیب افسرکی طرح ٹیکس فراڈ کی برآمدگی بذریعہ گرفتاری، تو کسی نے محکمہ کیلئے کاروباری شخص کی طرح جیسے تیسے پیسے اکٹھے کرتے یا جج بنتے بذریعہ انتظامی آرڈر برآمدگی کرتے ہَوا میں اُڑتے دیکھا۔ کچھ نے ان سب کا مہلک امتزاج کہا جبکہ ایک خاتون افسر نے تمام ٹیکس افسران کو مغل ٹوپی پہنے برصغیر میں مغل یا انگریز حکومت کے زیر سایہ مُنشی کے روپ میں ریاست کیلئے کسان، تاجر اور دیگر رعایا سے سیدھی یا ٹیڑھی انگلیوں سے ٹیکس وصول کرتے دیکھا۔ جواب یہ بھی آیا کہ اوپر سے نیچے تک ہم سب اکنامسٹ نہیں بلکہ بارُعب عہدے ’’مُنشی‘‘ یا سیکرٹری کی مانند ہیں جو ریاست کیلئے زرعی اور مالی ٹیکس وصول کرتا تھا اور ریاستی گلشن کا کاروبار چلتا تھا۔
ایک وقت تک زرعی ٹیکس بڑی مد تھی لیکن 1857ء کی جنگِ آزادی پر انگریز حکومت نے بھاری اخراجات اور قرضے بڑھنے پر انکم ٹیکس بھی لاگو کر دیا جس سے برصغیر میں نت نئے ٹیکسز کی بنیاد پڑی جو آج بھی جاری ہیں وقت کے ساتھ مُنشی یا مالیاتی سیکرٹری کی اہمیت بڑھتی گئی۔ پاکستان نے آزادی پر سنٹرل بورڈ آف ریونیو ایکٹ 1924ء کو اختیار کیا۔ 1960ء میں ڈویژن کا درجہ کم کر کے اسے ایک اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ کا درجہ جبکہ 1974ء میں خودمختار چیئرمین کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور سیکرٹری سے اختیارات چیئرمین کو تفویض کر دیئے گئے۔ 1991ء میں ڈویژن کا درجہ بحال جبکہ 1995ء میں ختم کر دیا گیا جبکہ فیڈرل بیورو آف ریونیو ایکٹ 2007 کے تحت اسے پھر ریونیو ڈویژن کا درجہ دے کر سیکرٹری ریونیو کا اختیار بھی سونپ دیا گیا۔ اتار چڑھائو میں اکنامسٹ کی بجائے چیئرمین بہرحال ایک سیکرٹری یا مُنشی دِکھتا ہے جو منسٹر فنانس کو جوابدہ ہے جس کی ذمہ داری پراجیکٹس کیلئے پیسہ لینا اور دینا ہے۔ لیکن آج کا وزیر ایک مِیر مُنشی دِکھتا ہے جس کی سوچ اور پالیسی ایف بی آر کے افسران اختیار کرنے کے پابند ہیں جن کا کام ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کی حکمتِ عملی بنانا ہے۔ جدید ریاست میں ٹیکس لگانے کے تین بڑے مقاصد ہیں۔ ریاست کے خرچے اٹھانا، آمدنی اور دولت کی تقسیم سے غریب اور امیر کے فرق کو کم کرنا اور کسی خاص اقتصادی کارگزاری کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کرنا تاہم یہاں تمام نئے قوانین صرف ٹیکس چوری روکنے کیلئے بنائے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جتنے قانون، اُتنی پیچیدگیاں، اتنا خوف، اُتنی کرپشن اتنے راستے اور اُتنی زیادہ چوری، اتنی بداعتمادی کہ کوئی شخص بارضا ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں اور دونوں متحارب گروپوں کے صورت میں آمنے سامنے کھڑے ہیں اور عالم یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے عظیم مقاصد اندھے کنویں میں جا گرے ہیں۔
سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ ابھی نئے چیئرمین اور انکی ٹیم براجمان ہوئے ہی تھے کہ آئی ایم ایف نے آ سلامی دی، پائوں پکڑے کہ سنگل ڈجٹ اور دیگر اصلاحات چاہتے ہیں، جواب ملا۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ۔ ابھی فقط پیسے اکٹھے کرو، مرتا کیا نہ کرتا قسط لینی ہے ۔ گھنگرو پہن لئے ناچنا تو پڑیگا۔ مُنشی جی کہتے ہیں آئی ایم ایف ’’منیم جی‘‘ سے بھی زیادہ سخت ہے آدھی آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن جان ساری نکال لیتے ہیں۔ ریچھ اورکھائی کے درمیان میر مُنشی ضربِ عضب کیلئے ڈالر چاہئیں کیا خبر کہ ضرب اپنے کو لگنے والی ہو ۔ انکے آنے سے جو آ جاتی ہے رونق منہ پہ ۔ منسٹر کے آنے پر افسران کو امیدیں تھیں کہ تنخواہوں میں اضافہ ہو گا۔ وہ ہزاروں کے عوض اربوں کی برآمدگی کرتے ہیں، دیکھنے ہم بھی گئے تماشہ نہ ہوا۔ فرمایا پچھلے سالوں میں بہترین کارکردگی رہی لیکن شاید متعلقہ حکام ہی دفعہ 122 (5) کے درست استعمال سے ٹیکس گزاروں کی جھولیاں جھاڑنے میں ناکام رہے۔ سابقہ بورڈ افسران نے عزتِ نفس بچانے کیلئے سیلز اور انکم ٹیکس کی دفعات 25 اور 177 جو کہ فیلڈ افسران کو آڈٹ اور جانچ پڑتال کے اختیارات عنایت کرتی ہیں پر اکتفا نہ کیا اور 72B اور 214C کے تحت ٹیکس گزاروں کی لگامیں اپنے ہاتھ میں بھی لے لیں۔ اس تضاد کا فائدہ ٹیکس گزاروں نے وکلاء کی کمر پر سوار ہو کر حکمِ امتناعی کی صورت میں عدلیہ سے لے لیا۔ مُنشیوں کی طرح ٹیکس افسران آج بھی سب سے بڑی بیورو کریسی ہیںاور موجودہ چیئرمین نثار احمد اور ممبر آئی آر ڈاکٹر محمد ارشاد درحقیقت اچھے اور زیرک افسران تصور کئے جاتے ہیں۔
موقعے کا افسر اہم ہوتا ہے پیشہ وارانہ طور پر پولیس، نیب ، ایف آئی اے افسر ملزم کو مجرم ثابت کرنے کیلئے شہادتیں اکٹھی کرتا ہے کاروباری شخص اور چارٹرڈ اکائونٹنٹ گفت و شنید سے معاملہ حل اور جج موصوف ملزم کومصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حتیٰ کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔ ضرورت ہے کہ بورڈ مرکز سے اختیارات کی منتقلی، مقدمہ بازی کو کم کرنے کے احکامات، جائز ری فنڈز کی ٹیکس گزار کے بنک اکائونٹس میں بروقت منتقلی، قوانین کی واضع اور غیر مبہم تشریح ، بہتر خدمات، کاروبار کرنے کیلئے آسانیاں، ٹیکس گزار پر تعمیل کے بوجھ میں کمی، سنگل ڈیجٹ اور شرح ٹیکس میں کمی، ٹیکس برآمدگی پر افسران کیلئے نقد انعامات ، ماتحت عملہ اور انتظامی سہولیات میں اضافہ کی حکمتِ عملی سے انکے ہاتھ مضبوط کرے۔ صرف مُنشی نہیں بلکہ اکاؤنومسٹ بنتے ایک طرف بہترین سہولیات فراہم کرے اور پھر نادہندگی کی صورت میں دفعہ 2(37)جیسی دفعات کے تحت دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی طرح مربوط تفتیشی اور پراسیکیوشن نظام فراہم کرے۔ تفتیش اور قانون کی تعلیم سے آراستہ افسران کی ٹیم تیار کرے۔ اپنی گاڑیاں، اپنے تھانے ، اپنی حوالات، رجسٹر ایف آئی آر اور روزنامچے جیسے اپنے رجسٹر تیار کرے۔ ایک طرف افسران مضبوط ہونگے تو دوسری طرف ٹیکس چوری کرنے سے بااثر طبقہ اجتناب کریگا اور مربوط نظام سے نہ کسی بے گناہ پر زیادتی ہو گی اور نہ کوئی گنہگار بچ سکے گا۔
مُنشی جی!
Jan 02, 2016