وفاقی حکومت مسلسل انکاری، داعش کو پاکستان میں موجودگی ثابت کرنے کیلئے دفتر کھولنا پڑے گا: بی بی سی کا تبصرہ

Jan 02, 2016

کراچی (بی بی سی اردو) یہ سیدھا سیدھا سوال اگر وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے پوچھیں تو شاید وہ اس بار چڑ جائیں کیونکہ گذشتہ فروری سے آج تک ان کا ایک ہی جواب ہے ’دولتِ اسلامیہ کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور نہ ہی قائم ہونے دیا جائے گا۔‘ جنرل راحیل شریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کا اس ملک پر سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے۔ جب اتنی معتبر وفاقی ہستیاں تواتر سے دولتِ اسلامیہ کے مقامی وجود سے انکاری ہوں تو ان کی بات پر یقین کر لینا چاہئے مگر مشکل یہ ہے کہ عوام تو رہے ایک طرف خود صوبائی ادارے اس وفاقی دعوے کو ہضم کرنے پر آمادہ نہیں۔ سالِ گذشتہ خود دولتِ اسلامیہ کی ویب سائٹوں پر یہ ’نیوز بریک‘ ہوئی کہ دولتِ اسلامیہ خراسان کا وجود عمل میں آ چکا ہے اور پاکستان کے لئے دولتِ اسلامیہ کا کمانڈر سعید خان کو بنایا گیا ہے۔ اسی دوران دولتِ اسلامیہ کے ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عراق میں ایک کیمپ پاکستانی مجاہدین کے لئے بھی قائم کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس بلوچستان کے محکمِہ داخلہ نے یہ رپورٹ جاری کی کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی کے تعاون سے دولتِ اسلامیہ کا مقامی ڈھانچہ وجود میں آ چکا ہے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کو بھرتی کا کام زوروں پر ہے۔ سندھ کے محکمہ پولیس کی اعلیٰ قیادت نے ایک سے زائد بار نشاندہی کی کہ دہشت گردی کے فلاں فلاں واقعے کے پیچھے دولتِ اسلامیہ کے نظریے سے متاثر مقامی گروہوں کا ہاتھ ہے۔ کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے اعلیٰ اہلکار عادل مسعود بٹ اور ایک اور تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ کو بھی دولتِ اسلامیہ سے تعلق کے شبے میں حراست میں لیا گیا۔ سیالکوٹ سے 8 افراد کی گرفتاری اور کل ہی پنجاب پولیس نے یہ بھی تصدیق کی کہ لاہور کی تین خواتین جن کی گمشدگی کے بارے میں چند روز پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی اب پتہ چلا ہے کہ اپنے بچوں سمیت شام منتقل ہو چکی ہیں۔ اب تو یہی کسر رہ گئی ہے کہ دولتِ اسلامیہ اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ یا کراچی کے کسی پلازے میں ایک دفتر کرائے پر لے اور اس پر دولتِ اسلامیہ پاکستان شاخ کا بورڈ لگا دے، تب کہیں جا کے امکان ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود مرکزی سطح پر تسلیم کرلیا جائے۔

مزیدخبریں