اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیشن رپورٹ) وفاقی حکومت نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے، غیررسمی معیشت کو باقاعدہ بنانے کے لئے رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم کا اعلان کردیا جو صرف کاروباری برادری کیلئے ہوگی۔ اس سے کالا دھن سفید ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز ہونے والی تقریب میں وزیراعظم محمد نواز شریف، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور تاجر برادری کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سکیم کے تحت ’’نان فائلرز‘‘ کو اپنا سرمایہ ظاہر کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ 5 کروڑ روپے تک کا سرمایہ ظاہر کرنے والوں کو ایک فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ان کے سرمایہ کو قانونی تحفظ مل جائیگا۔ تاجروں کو ٹرن اوور ٹیکس دینا ہوگا۔ اس وقت ٹیکس نیٹ میں موجود فائلرز بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ تاجروں کو سادہ فارم بھر کر اپنی ریٹرن داخل کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایشوز کو مفاہمت اور مشاورت سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اچھا بھلا مسئلہ بڑی خوش اسلوبی اور اتفاق رائے کے ساتھ طے کر لیا گیا جس کیلئے میں اسحاق ڈار، خواجہ محمد شفیق، نعیم میر، اجمل بلوچ اور دیگر ساتھیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ مشاورت کیساتھ معاملات کو طے کیا جائے اس سے بہتر بات اور کوئی ہو نہیں سکتی۔ یہی جذبہ انشاء اللہ ہمیں آگے لے کے چلے گا، یہی جذبہ پاکستان کو مسائل سے باہر نکالے گا اور یہی جذبہ انشاء اللہ بے روزگاری کے خاتمے کا باعث بنے گا، یہی جذبہ غربت کے خاتمے کا باعث بنے گا، یہی جذبہ دہشت گردی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ کراچی انشاء اللہ ترقی کریگا، امن آئیگا، کراچی پاکستان کا مرکز ہے۔ اگر کراچی پُرامن ہے تو اللہ کے فضل سے پورا ملک پرامن ہے۔ وہاں کے حالات مزید بہتر کریں گے جب ہم آئے ہیں تو ہم نے چیلنجز کا مقابلہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا، ہم گھبرائے نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ معاملہ ہو، بھارت کے ساتھ معاملہ ہو، ان سب پہ ہم نے آگے بڑھنا ہے، ان سب پہ ہم نے ترقی کرنی ہے اور اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل بات چیت اور گفتگو کے ذریعے حل کرنے ہیں۔ ہمیں اندرونی طور پر بڑا مضبوط ہونا چاہیے۔ اور ہماری معیشت مضبوط ہونی چاہئے۔ اُسی ملک کی افواج مضبوط ہوتی ہیں جس ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے، وہاں پر دہشت گردی بھی اپنے پائوں جمانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی لیکن اندرونی طور پر اگر ہم خستہ حال ہیں خدانخواستہ اندرونی طور پر اگر ہم کمزور ہیں تو پھر کو ئی بھی پہلو ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ تو اس لیے میری ڈار صاحب سے یہ بات ہوئی ہے الیکشن سے پہلے بھی اور الیکشن کے بعد بھی کہ ہم مشاورت کے ساتھ، تاجروںکے ساتھ، صنعتکاروں کے ساتھ، کاروباری برادری کے ساتھ ملکر پالیسیاں بنائیں گے اور ٹیکس کی شرح کو اتنا نیچے لیکر آئیں گے، اتنا نیچے کہ وہ خوشی کے ساتھ ٹیکس ادا کریں۔ ہم جتنے بھی ایل این جی پر چلنے والے بجلی کے کارخانے لگا رہے ہیں ، ان کو ہم مثلاً 100 ارب روپے میں لگا رہے ہیںتو آج 40 ارب روپے ہم نے بچایا بھی ہے صرف شفافیت کی وجہ سے، حکومت اس فرض کو پوری طرح سے ادا کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپنی قوم کے ایک ایک پیسے کو امانت سمجھتے ہیں اور امانت میں خیانت اللہ کے فضل وکرم سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت مضبوط ہو گی تو ہماری افواج بھی مضبوط ہونگی، نئے سال کی شروعات اچھی ہوئی ہے، تاجروں کے مسائل حل ہوئے ہیں، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی، کراچی کے حالات بہتر ہوئے، خواندگی، بے روزگاری ختم ہونے سے دہشت گردوں کو ملک میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ رضاکارانہ ٹیکس سکیم کی پارلیمنٹ سے منظوری لیں گے۔ تقریب سے خطاب میں چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے کہا ہے کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 7 لاکھ سے بڑھ کر 10 لاکھ ہوگئی ہے۔ کالا دھن سفید سکیم کے تحت قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں کے ارکان استفادہ نہیں کر سکیں گے جبکہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور منشیات کے جرائم میں سزا یافتہ افراد بھی رضاکارانہ سکیم کے تحت مستفید نہیں ہو سکیں گے۔ سکیم سے فائدہ اٹھانے والے آڈٹ اور 10 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ویلتھ سٹیٹمنٹ داخل کرانے سے مستثنیٰ ہونگے۔ تاجروں کیلئے مراعات کے پیکیج کے تحت سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کی شرط ختم کر دی گئی ہے تاہمک بڑے تاجر جن کا بجلی کا بل 50 ہزار ماہانہ یا 6 لاکھ روپے سالانہ تک ہے بدستور سیلز ٹیکس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہونگے۔ وزیر خزانہ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سکیم کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم کہنا مناسب نہیں ہو گا، کوئی جائیدادیں، جیولری اس سکیم سے وائٹ نہیں ہو گی، وہ تاجر جنہوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے سکیم متعارف کروا رہے ہیں۔ اس سکیم کے ذریعے حکومت کا کوئی نقصان نہیں، اس میں فائدہ ہی ہے۔ سمگلنگ روکنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے۔ پاکستان میں معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما نے مجھ سے خود بات کرتے ہوئے کہا کہ ایمنسٹی سکیم اچھی متعارف کرائی ہے۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے تاجر بھی ہیں جن کو سہولیات ملیں گی۔ تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ آرڈیننس نہ لائیں اسمبلی میں بل لائیں۔ دی نیشن کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء نوید قمر نے حکومت کی طرف سے پپش کئے جانیوالے بل کو فوری منظوری سے رکوا دیا اور سپیکر نے اسے مزید غور کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
اسلام آباد (عترت جعفری) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے تاجروں کو مراعات دینے کا پیکج اور مالیاتی اداروں (محفوظ ٹرانزیکشن) بل 2016ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیئے۔ موخر الذکر بل کو تفصیلی غور اور رپورٹ کے لئے متعلقہ مجلس قائمہ کو بھیج دیا گیا۔ تاجروں کو مراعات دینے کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی مختلف شقوں میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ تاجر (نان فائلرز) جس نے 31 دسمبر 2015ء سے 10 سال قبل تک کوئی گوشوارہ داخل نہ کرایا ہو اسے بعض شرائط کے ساتھ اپنا ورکنگ سرمایہ ایک فیصد ٹیکس کے ساتھ ظاہر کرنے پر چھوٹ دیدی گئی۔ ٹیکس سال 2015ء میں سرمایہ ظاہر کرنے اور گوشوارہ داخل کرانے والے تاجر کو آئندہ تین سال تک آڈٹ سے مشروط استثنیٰ دیا جائے گا۔ ٹیکس سال 2016ء کا گوشوارہ داخل کراتے ہوئے تاجر کو 2015ء میں ظاہر کردہ اپنے ورکنگ سرمایہ سے کم سے کم تین گنا زائد ٹرن اوور بتانا ہو گی۔ تاجر ٹیکس سال 2017ء اور 2018ء میں اس طرح ٹرن اوور ظاہر کرے گا جس پر ادا کردہ ٹیکس اس سے قبل کے سال میں جمع کرائے گئے ٹیکس سے 25 فیصد زائد ہو۔ تاجروں پر ٹرن اوور ٹیکس لگایا گیا ہے۔ جہاں ٹرن اوور 5 کروڑ روپے تک ہو ٹیکس کی شرح 0.20 فیصد ہو گی۔ 5 کروڑ روپے سے زائد اور 25 کروڑ روپے تک ایک لاکھ روپے کے علاوہ 5 کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور کی رقم پر 0.15 فیصد ٹیکس لیا جائے گا۔ 25 کروڑ روپے سے زائد کی ٹرن اوور ظاہر کرنے والے تاجر کو 4 لاکھ روپے بمعہ 25 کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور پر 0.1 فیصد کے مساوی ٹیکس دینا ہوگا۔ ایسے تاجر اس سکیم میں شامل نہیں ہوں گے جن کی آمدن تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ ہے سکیم سے استفادہ کرنے والے تاجر ودہولڈنگ کی کسی ایڈجسٹمنٹ کے بھی اہل نہیں ہوں گے اور نہ ری فنڈکلیم کر سکیں گے۔ ایسے تاجر جنہوں نے 2015ء میں تو سکیم سے استفادہ کرکے ریٹرن داخل کرایا تاہم سال 2016ئ، 2017ء اور 2018ء کے ریٹرن داخل نہ کرائے وہ 2015ء تا 2018ء تک اس سکیم کے ثمرات کے اہل نہیں ہوں گے۔ تاجر کو ریٹرن داخل کراتے ہوئے اپنا فون، ای میل ایڈریس، موبائل فون نمبر ورکنگ ٹرن اوور بتانا ہو گی۔ ایسے تاجر جو اب تک ٹیکس نیٹ میں نہیں اپنا 5 کروڑ روپے (50 ملین روپے) تک کا ورکنگ سرمایہ ظاہر کر سکیں گے اور ظاہر کر دہ سرمایہ کے ایک فیصد کے مساوی ٹیکس ادا کرکے اپنے سرمایہ کو قانونی بنا سکیں گے۔ اس طرح 5 کروڑ تک کا کالا دھن سفید بنانے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ سرمایہ ظاہر کر دینے والے تاجر کو 2015ء میں ایک فیصد ٹیکس دینے کے بعد آئندہ برسوں میں ٹرن اوور ٹیکس دینا ہو گا۔ جبکہ ’’فائلرز‘‘ کو یہ سہولت دیدی گئی ہے کہ وہ 2015ء کے ٹیکس سال میں اگر چاہیں تو اپنی ٹرن اوور پر مقررہ شرح سے ٹیکس دیدیں یا اپنی آمدن ظاہر کرکے اس پر مقررہ شرح سے انکم ٹیکس ادا کر دیں تاہم شرط ہو گی ان دونوں میں سے جس میں زیادہ ٹیکس بنتا ہے وہ ادا کر دیں۔ بل لانے کی وجوہات میں کہا گیا ہے کہ تاجروں کوموقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس کے امور کو باضابطہ بنا لیں۔ ٹی وی کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016ء پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔ 31جنوری 2016ء تک گوشوارے جمع کرانے پر گزشتہ 4 سال کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ سالانہ ٹیکس گوشواروں کی بھی چھوٹ حاصل ہوگی۔ 2016ء سے 2018ء کے دوران ٹرن اوور پر ٹیکس ریٹس مختلف ہوں گے۔ فائلر بننے کے بعد ٹیکس کی شرح بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ پانچ سے 25 کروڑ روپے ٹرن اوور پر ایک لاکھ روپے فکسڈ ٹیکس بھی ہوگا۔ 25 کروڑ روپے تک ٹرن اوور پر 4 لاکھ روپے فکسڈ ٹیکس دینا ہوگا۔ 25 کروڑ روپے سے اضافی بل پر ٹیکس کی شرح 0.10 فیصد ہوگی۔