بالآخر بلدیاتی ادارے فعال، نئے سال پر ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے عزم نو کی ضرورت

پنجاب بھر میں مقامی حکومتوں کا نظام 10 سال بعد فعال ہو گیا ہے۔ بلدیاتی سربراہوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔ نیا بلدیاتی نظام آج 2 جنوری سے لاگو ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے مئیرز، ڈپٹی مئیرز، چیئرمینوں و وائس چیئرمینوں ضلع کونسلوں کو عہدوں کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دی اور کہا ہے کہ بلدیاتی ادارے شہریوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنےکا موثر نظام ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی نظام کے فعال ہونے سے نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور ترقی کا عمل مزید تیزی سے آگے بڑھے گا۔ انہوں نے کہا اپنے آرام کو عوام کیلئے قربان کرنا بلدیاتی اداروں کے سربراہان اور نمائندوں کے منصب کا تقاضا ہے اور یہ منصب صرف اور صرف خدمت کا متقاضی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا ہر پانچ سال بعد انعقاد آئینی تقاضہ ہے جسے حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے نظر انداز کئے رکھا۔ سپریم کورٹ کے بار بار یاد دلانے اور بالآخر سخت احکامات پر انتخابات کرا دیئے گئے۔ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی میں جتنی تاخیر ممکن ہو سکتی تھی وہ کی گئی۔ دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کی طرح سپریم کورٹ کو مردم شماری کے انعقاد کے حوالے سے بھی سخت نوٹس لینا پڑا، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے ادوار میں اس آئینی تقاضے سے انحراف کیا۔ آئین کے مطابق مردم شماری ہر دس سال بعد ہونا ہوتی ہے۔ 1998ءکے بعد 2008ءمیں اس کا انعقاد ہو جانا چاہئیے تھا۔ آئینی تقاضے خودکار طریقہ سے پورے ہوتے رہنا چاہئیں، سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر آئین پر عمل سیاستدانوں کی جمہوریت اور آئین سے کمزور کمٹمنٹ کا اظہار ہے۔
پنجاب میں بلدیاتی ادارے نئے سال کے آغاز کیساتھ فعال ہو رہے ہیں۔ سندھ میں چند ماہ قبل ہو چکے ہیں۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں اس سے پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات سے مالا مال کر دیا گیا تھا۔ گراس روٹ لیول تک اقتدار اور اختیارات کی منتقلی کے تصور کو عملی جامہ آمریت کے دور میں پہنا دیا گیا تھا آج مشرف کے تشکیل دیئے ہوئے مقامی حکومتوں کے اختیارات پر جمہوری حکومتوں میں قدغن لگا دی گئی ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے لارڈ میئر وسیم اختر اختیارات کیلئے سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لاہور کے نو منتخب لارڈ میئر کرنل (ر) مبشر نے کہا ہے کہ مسائل کا حل ان کی ترجیحات ہیں، اختیارات کیلئے کوئی جنگ نہیں، سسٹم میں گئے تو اختیارات مل جائیں گے۔ جہاں بلدیاتی نمائندوں کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے وہاں اختیارات کے جھگڑے کا زیادہ خدشہ نہیں، اس کے برعکس صوت حال سے وہی کچھ ہوتا ہے جو سندھ کے سب سے بڑے شہر کے لارڈ میئر اور حکومت کے درمیان ہو رہا ہے۔ گراس روٹ لیول تک اختیارات منتقل کئے بنا مقامی حکومتوں کے قیام کے ثمرات عوام تک کما حقہ نہیں پہنچ سکتے۔ سندھ اور پنجاب حکومت کی طرف سے فنڈز اور اختیارات ایم این ایز اور ایم پی ایز کی ذات میں مرتکز کر دیئے گئے ہیں، انہی کو یہ پارٹیاں اپنا مضبوط دست بازو سمجھتی ہیں جبکہ حقیقت میں بلدیاتی نمائندے عوام کے زیادہ قریب ہیں اور وہ عوام اور حکومت کے مابین پل کا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔
بلدیاتی اداروں کے پاس سردست جتنے بھی اختیارات ہیں ان سے یہی امید ہے کہ وہ ان کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ ہونا بہتر ہے۔ وہ اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے عوامی خدمت کیلئے کمر کس لیں۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، آپ اپنے اختیارات کی بحالی کی پرامن جدوجہد جاری رکھیں۔
2016ءکا سورج غروب، نئے سال کا طلوع ہو چکا ہے۔ ہمیں گزشتہ سال کی کامیابیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئے سال کو خوشیوں اور خوشحالی کا سال بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اتفاق سے نئے سال کے آغاز پر مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالا ہے۔ ملک میں انصاف کی عملداری میں اولین کردار عدلیہ کا ہے۔ عدل و انصاف کا دارو مدار اس کے سربراہ کی اہلیت و صلاحیت اور کمٹمنٹ پر ہوتا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلا امتیاز اور غیر جانبدار انصاف کی فراہمی کا حلقے بنچ اور بار کے ساتھیوں کو بڑے وثوق سے یقین دلایا ہے انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی بہت بڑے اور شہرہ آفاق پانامہ کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بنچ کی تشکیل کر دی۔ اس کیس کی وجہ سے قوم کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بنچ کی تشکیل سے نئے چیف جسٹس کا اس کیس کو بلاتاخیر منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ اپنے اقوال اور وعدوں کے مطابق وہ انصاف کی عمل داری اور کارفرمائی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک کرپشن، بدعنوانی، رشوت اور لاقانونیت سے پاک ہو جائیگا۔ عوام کے آدھے سے زیادہ مسائل محض عدل و انصاف کے نظام کی اس روح کے مطابق عمل داری سے حل ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم محمد نوازشریف نے سال نو کے پیغام میں کہا ہے کہ 2017ءیقینی طورپر پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے آغاز کا پیامبر ثابت ہو گا۔ ہم نے تاریخ میں ایک فیصلہ کن صفحہ پلٹا ہے اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنجز پر نمایاں طورپر قابو پایا ہے۔ وزیراعظم نے قوم کو سال نو کی مبارکباد دی اور کہاکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان آخر کار پرامن سرزمین اور ترقی یافتہ معیشت کی منزل کی جانب چل پڑا ہے اور یہ منزل زیادہ دور نہیں ہے۔ نیا سال نئے دور کے آغاز کا پیغامبر اسی طرح ثابت ہو سکتا ہے کہ حکمران اپنی تمام تر توانائیاں، ایمانداری اور دیانتداری سے قوم و ملک کی تقدیر سنوارنے پر صرف کر دیں، حکمران اور اپوزیشن طبقے پر یکساں کرپشن اور بدعنوانیوں کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ مقدمات بھی ہیں، احتساب کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی بھی اشد ضرورت ہے، اس کے سول پیغامات کی خوبصورت الفاظ کے مجموعے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سال نو کا پوری دنیا میں جشن منایا گیا ہم پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں، بڑے چھوٹے شہروں میں آتش بازی ہوتی رہی، منچلے رات بھر فائرنگ کر کے خوف و ہراس پھیلاتے رہے، ہلا گلہ، ہاﺅ ہو ہوتی رہی۔ جشن اخلاقیات، تمیز اور تہذیب کے دائرے کار میں رہ کر منایا جائے تو بہتر ہے۔ بہرحال یہ ایک رات تھی جو لوگوں نے اپنے اپنے طور پر جیسے مناسب سمجھا جشن منا کر گزارلی۔ اللہ کا شکر ہے کہ پورے ملک میں امن رہا۔ جشن بہت منا لیا اب قوم اور ادارے اپنے اپنے کام میں لگ جائیں۔ سبز ہلالی پرچم کی آن بان اور شان کیلئے جس کا جو کردار ہے وہ ادا کریں۔ 2017ءانتخابی مہم کا بھی سال ہے۔ حکومت عوام میں اپنی پذیرائی اور مقبولیت میں اضافے کیلئے پورا زور لگائے گی۔ جو وعدے چار سال میں پورے نہ ہو سکے پورے کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ آج ہر پارٹی حکومت میں ہے یوں عوام کو مصنوعی ریلیف اور عارضی اقدامات کے سہی ایک ریلیف ملنے کی امید ہے جبکہ ضرورت مصنوعی نہیں پالیسیوں میں تسلسل اور ٹھوس اقدامات کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن