افغانستان، پاکستان اور 2017ئ

2017ءنئے امکانات لے کر طلوع ہو چکا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے سامنے پلکیں بچھا رہے ہیں۔ ماسکو سہ فریقی کانفرنس میں افغانوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن روس نے افغان طالبان کو سیاسی اور فوجی قوت تسلیم کر کے رابطے قائم کر لئے ہیں کہ قیام امن کے لئے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ بھارت اور امریکہ پسپا ہو رہے ہیں اب اس خطے میں مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں علاقائی ممالک کریں گے۔

جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں طاقت کی نئی تکون سارے منظرنامے کو بدل رہی ہے کامل 37 برس بعد پاکستان اور روس تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں بھارت کی تمام تر مخالفت کے باوجود مسلح افواج کے کمانڈوز خصوصی دستوں کی مشترکہ مشقوں نے طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیا ہے اب ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کرنا پڑا اور نئے سال کی مبارک باد دینا پڑی کہ زمینی حقائق تیزی سے بدل رہے ہیں۔
پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (ISPR) نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے فون پر ہونے والی گفتگو کے بارے میں باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی اور تینوں رہنماﺅں کی نئے سال کی تہنیتی مبارک باد اور نیک جذبات کے حوالے تفصیلات جاری کیں۔ افغان آرمی چیف جنرل قادم شاہ رحیم (Qadam Shah Raheem) نے جنرل باجوہ کو افغانستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔
یہ جذبہ خیر سگالی اچانک نہیں پیدا ہو گیا اس کے پس منظر میں افغانستان میں قیام امن کے لئے ماسکو ہی پاک چین اور روسی سیکرٹری خارجہ کے مذاکرات کار فرما تھے جس میں بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر کا توڑ کرنا پاکستان کا بنیادی ہدف ہے۔ یہ سہ فریقی مذاکرات تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ افغانستان میں آنجہانی سوویت یونین کی دسمبر 1979ءکی مداخلت کے 37 سال بعد پاکستان اور روس میں اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے ہیں۔
ان مذاکرات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے ہونے والے ان مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا جس پر افغان وزارت خارجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے بارے میں مذاکرات افغانوں کی شرکت کے بغیر ہو رہے ہیں جس پر ہمیں حیرت ہے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی فریق نے ہم سے رابطہ تک نہیں کیا۔ لیکن روس‘ چین اور ایران اس علاقے میں امریکی فوجی موجودگی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر ماسکو سہ فریقی مذاکرات امریکہ مخالف اتحاد بنانے کے لئے ہوئے ہیں تو افغان طالبان ان مذاکرات کی یک طرفہ حمایت کرتے ہیں۔
امرتسر میں ”ہارٹ آف ایشیا“ کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی نے تمام سفارتی ادب آداب بارے طاق رکھ کر پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے لئے 500 ملین ڈالر کی پاکستانی امداد کی ہمیں ضرورت نہیں ہے پاکستان اس رقم کو دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے پر خرچ کر لے جہاں سے افغان سر زمین پر دہشت گرد حملے کئے جاتے ہیں لیکن چند ہفتوں میں علاقائی منظر نامہ بدل رہا ہے 31 دسمبر 2016ءکی شام جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان فوجی اور سیاسی قیادت کے نیک جذبات کے پیغامات اور نئے سال کی مبارک باد نے ماحول کی کشیدگی کو یکسر ختم کر دیا ہے جبکہ سرد دنوں میں ایک دوسرے کے متحارب تصور کئے جانے والے بھارت اور امریکہ میں آشنائی‘ دوستی میں بدل رہی ہے تجارتی اور فوجی تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط ہو رہے ہیں چین کے خلاف دونوں ممالک باہم یک جا ہو کر نئی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں ساﺅتھ چائنہ سمندر میں چین کی جارحانہ حکمت عملی سے بھارت اور امریکہ خوف زدہ ہیں اور یہ خوف ان کی قربت کا سبب بن رہا ہے جبکہ 80 کی دہائی کے افغان جہاد میں ایک دوسرے کے اتحادی پاکستان اور امریکہ تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہٹ رہے ہیں جنہوں نے سوویت یونین کی ناقابل شکست سرخ فوج کو ہزاروں چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر لہولہان کر کے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا اور زمانہ عجب منظر دیکھ رہا ہے۔
سرد جنگ کے دور میں ایک دوسرے کے جانی دشمن روس اور پاکستان پہلی مشترکہ فوجی کمانڈوز کی مشقیں کر رہے ہیں جبکہ پاکستان اور چین کے گہرے دوستانہ مراسم میں مزید وسعتیں اور گہرائی پیدا ہو رہی ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ (CPEC) 46 ارب ڈالر سے بڑھتے بڑھتے 60 ارب ڈالر مالیت کو چھو رہا ہے ۔ ساری دنیا کی نگاہیں اس تقدیر بدل دینے والے منصوبے پر لگی ہوئی ہیں جس سے وسط ایشیائی ممالک براہ راست جنوبی ایشیا سے منسلک ہو جائیں گے اور گوادر بندرگاہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے ۔ چین کی جارحانہ سفارت کاری کا یہ عالم ہے کہ وہ مودی کو بھی (CPEC) میں شامل ہونے کی دعوت دے چکا ہے ۔
بدلتی ہوئی صورتحال میں تمام تر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود روس بھارت تعلقات کا بنیادی انحصار بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پر ہے روس آج بھی بھارت کو جنگی ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس پر چین کو کوئی اعتراض نہیں لیکن خوفزدہ بھارتی انتہا پسند قیادت نئی پیدا شدہ صورتحال کو ہضم کرنے پر آمادہ نہیں ہے
روس ، چین اور امریکہ ہر حال میں افغانستان میں استحکام اور امن کا قیام چاہتے ہیں جو افغان طالبان اور پاکستان کی مکمل ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہےں ۔ افغانستان کے اقتصادی دارالحکومت قندوز پر طالبان کی دو مرتبہ کامیاب چڑھائی کے بعد صدر اوباما نے افغانستان سے مکمل امریکی فوجی انخلا پر نظر ثانی کر کے 10 ہزار امریکی فوجی متعین رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ طالبان ، چین اور ایران کو قابل قبول نہیں ہے ۔
پاکستان اور روس افغانستان میں درندہ صف داعش جنگجوﺅں کی مقبولیت اور پذیرائی پر پریشان ہیں جن کا فوری توڑ چپے چپے میں بکھرے ہوئے افغان طالبان ہی کر سکتے ہیں اسی لئے گزشتہ ہفتے روسی وزارت دفاع کے سینئر افسر ضمیر کابلوف (Zamir Kabolov) نے پہلی بار روسی حکومت کے طالبان کے بارے پالیسی بیان میں کہا تھا ”روس طالبان کو افغانستان میں اہم فوجی اور سیاسی قوت سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر داعش کے فتنے کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔داعش دمشق سے کابل تک امریکہ اور اس کے ٹوڈیوں کے زیر سایہ درندگی اور وحشت کے نظارے کر رہی ہے ۔
کابلوف نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں گومگو کا شکار ہے ۔ اس کی حکمت عملی واضح نہیں ہے ۔ افغانستان میں ایک دہائی تک جنگ میں الجھنے اور فوجی موجودگی کے باوجود امریکی امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ اب ہم علاقائی ممالک اور طالبان کے تعاون سے افغانستان میں امن و استحکام لانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور روس طالبان سے با ضابطے رابطے استوار کر چکا ہے ۔ جس کے بعد طالبان رہنماﺅں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردی کے حوالے سے بنائی جانے والی فہرست سے نکلوانے کی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا گیا ہے واضح رہے کہ روس اور چین سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق رکھنے والی سپر پاور ہیں ۔
شاطر امریکی پسپا ہو رہے ہیں اسلام آباد ، ماسکو اور بیجنگ میں افغان باقی کہسار باقی کی باز گشت گونج رہی ہے جو کابل اور نئی دہلی میں بھی واضح سنائی دے رہی ہے ۔ 2017ءنئے احکامات لے کر آ رہا ہے ۔ افغان قیادت جنرل باجوہ کی منتظر ہے ۔تاریخ نئے ورق الٹ رہی ہے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن