’’بیت المقدس‘‘۔ عربی زبان میں بیت گھر کو اور مقدس تکریم واحترام کے معنوں میں آتا ہے۔ بیت المقدس وہ جگہ ہے جو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسری قابل احترام جگہ ہے۔ عام طور پر شہر یروشلم کو بھی بیت المقدس ہی کہا جاتا ہے۔ یروشلم اوراس کی عبادت گاہ کی بنیاد حضرت دائود ؑ نے رکھی جبکہ اس کی تکمیل حضرت سلیمان ؑ نے کی یہ شہر مسلمانوں، مسیحوں اور یہودیوں کے لئے یکساں متبرک ہے۔ انبیاء کرام کی اکثریت اسی شہر میں معبوث ہوئی۔ آنحضرتؐ ہجرت کے بعد ایک سال پانچ ماہ تک صحابہ کرام کے ساتھ اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے اسے قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے جب رسول کریمؐ معراج کے لئے تشریف لے گئے تو آپؐ نے مسجد اقصیٰ میں انبیاء کی امامت فرمائی یہاں حضرت دائودؑ، حضرت سلیمانؑ اور کئی دوسرے انبیائؑ کے مقابربھی موجود ہیں۔ حضرت دائودؑ نے اس مقدس شہر پر 33 برس تک حکومت کی۔ ان کی یہ بڑی خواہش رہی کہ وہ یہاں ایک عبادت گاہ بنائیں مگر اسرائیلی روایات کے مطابق انہیں خواب میں بشارت دی گئی کہ اللہ کا مستقل گھران کے صاحبزادے کے عہد میں تعمیر ہوگا۔ چنانچہ حضرت سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد 1012قبل مسیح میں اس عبادت گاہ کی تعمیر شروع کروائی اور یہ عمارت اسی جگہ تعمیر ہوئی جسے حضرت دائودؑ نے منتخب فرمایا تھا اس معبد کی تعمیر میں دو لاکھ افراد نے حصہ لیا اور عرصہ سات برس میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ازاں یہ عمارت ہیکل سلیمانی کے نام سے معروف ہوئی۔ ہیکل سلیمانی فن تعمیر کا ایک بہترین شاہکار تھا۔ اس کے اندر ایک مقدس ترین جگہ بنائی گئی جہاں تابوت سکینہ رکھا گیا۔ حضرت سلیمانؑ کے بعد بنی اسرائیل کی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل عیاشی ، حرام کاری اور فحاشی کا شکار ہوگئے اور اللہ کی عبادت چھوڑ کر بتوں کی پوجا شروع کر دی اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر شاہ مصر نے یروشلم پر چڑھائی کر دی اور بغیر کسی مزاحمت کے وہ شہر میں داخل ہوگیا وہ ہیکل سلیمانی اور عبادت گاہ کی تمام قیمتی چیزیں اور شاہی خزانہ لوٹ کر لے گیا بعد میں حزقیاہ نے ہیکل سلیمانی کی عظمت کو بحال کیا 598 ق م میں یہودیوں کی پہلی قوم بخت نصرکے ہاتھوں تباہی و بربادی کا شکار ہوئی۔ اس تباہی میں نہ صرف ہیکل سلیمانی کا نام ونشان مٹ گیا بلکہ دیگر صحائف کے ساتھ تورات بھی غائب ہوگئی اور تابوت سکینہ بھی جس کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔اب 70ء میں جب رومی شہنشاہ طیطس شہر پر حملہ آور ہوا تو رومی سپاہ یہودیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہیکل سلیمانی کے اندرونی صحن میں داخل ہوئے تو ایک یہودی نے جلتی ہوئی مشعل ہیکل کے اندر پھینک دی۔ جس سے آگ بھڑک اٹھی اور ہیکل جل کر راکھ ہوگیا اور اس طرح خود یہودیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اس کے بعد صدیوں تک اس جگہ غلاظت اور ملبے کے ڈھیر پڑے رہے اور لوگ یہودیوں سے نفرت کی بنا ء پر کوڑا کرکٹ اور گند اسی جگہ پھنکتے تھے اور حضرت عمرؓ کے دور میں جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو یہاں یہودیوں کی کوئی عبادت گاہ نہیں تھی۔ ہر طرف کھنڈر ہی کھنڈر تھے اور حضرت عمرؓ کے حکم پر ان کھنڈروں پر ایک مسجد تعمیر ہوئی اس سادہ سی تعمیر کے 50 سال بعد اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے 72ھ میں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کی بنیاد ڈالی۔ یہ خلیفہ صرف قبۃ الصخرہ ہی تعمیر کر سکا۔ مسجد اقصی کی ادھورا کام اس کے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مکمل کرایا۔ وہ مقدس مقامات جن کی بدولت یہ مقدس شہر مسلمانوں، مسیحوں اور یہودیوں کی عقیدتوں کا مرکز ہے شہر کی مشرقی پہاڑی پر ایک احاطہ میں واقع ہے جس کو مسلمان حرم شریف اور یہودی بیت اللحم کہتے ہیں ۔یہ بیت المقدس کا مقدس ترین حصہ ہے۔
جدید اسرائیل کا بانی ڈیوڈ بن گوریان تھا جس کے نام پر اسرائیلی درالحکومت تل ابیب کا انٹرنیشنل ائیر پورٹ بھی منسوب ہے۔ جب ڈیوڈ نے اسرائیل پر قبضہ کر لیا اور فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے لگا تو ایک فلسطینی عرب شعبان لطفی نے فلسطین کی آزادی کے لئے گوریلا کارروائیاں شروع کیں تو ڈیوڈ نے اس کی گرفتاری کے بعد جلتی ہوئی لوہے کی سلاخوں سے اس کو اندھا کر دیا۔ شعبان لطفی کی قربانی رنگ لائی اور یوں فلسطین کی تحریک آزادی نے جنم لیا جو آج تک جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کرکے کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ یروشلم میں قائم کرے گا۔ ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا ہے۔ جو عالمی امن کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ اس فتنے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہودی مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ کی معیشت کلی طور پر یہودیوں کے انتہا پسند فرقہ صیہونیوںکے ہاتھوں میں اور کوئی بھی امریکی حکومت صیہونیوں کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتی اور حدیث رسول پاکؐکے مطابق ہنود اور یہود کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ جب بھی امریکی صدارت یہود کے ہاتھوں میں آئی اس نے اپنی تمام تر توانیاں اور وسائل مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردئیے اور اسرائیل کو مکمل حمایت اور شہ دے کر فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کی انتہاء کر دی آج کے مہذب دو ر میں بھی اور اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین وہ ملک ہے جہاں مسجدوں، ہسپتالوں اور سکولوں پر گولیاں اور بم برسائے جارہے ہیں اور معصوم بچوں اور نہتے مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے لیکن صد افسوس کہ مسلمان حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر اس پر یورپی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے چپ سادھ رکھی ہے اس پر مستزاد یہ کہ مسلم تنظیموں بھی مجرمانہ حد تک خاموش ہیں۔جبکہ انڈونیشیاء اور سوڈان جیسے مسلم ممالک میں جب چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں مسیحی آبادی تھی نے آزادی کا نعرہ لگایا تو فوری طور پر ان ملکوں سے علیحدہ کرکے مسیحی ممالک بنا دئیے گئے لیکن ان کو فلسطین اور کشمیر نظر نہیں آیا۔ دکھ یہ ہے کہ 39اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد اور اسلامی ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں؟ کیا یہ تنظیمیںصرف نام و نمود کے لئے بنائی گئی ہیں ۔ صرف ترکی ایک ایسا ملک ہے جس نے بڑی دلیری سے ڈونلڈ ٹرمپ کو جواب دیا ہے جبکہ باقی اسلامی ممالک بشمول ایٹمی قوت پاکستان سمیت سب خاموش ہیں۔ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کے مصداق مسلم امہ کو چاہیے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر اتحاد کا عملی مظاہرہ کریںاور نہتے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا منہ توڑجواب دیں۔ایک نو جوان شاعر عمران کے اشعار اس حوالے سے حسب حال ہیں
؎میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
یہ میری قوم کے راہنما بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستان بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ راہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوںنہ غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں