31 دسمبر کو 2017ء کا آخری کالم تحریر کر رہا ہوں۔ علی الصبح ذہن عبادت کے بعد لکھنے پر مجبور کر چکا ہے۔ کالم کے کئی حصے ہوں گے۔ کچھ ذاتی مشاہدات و تجربات‘ کچھ تجزیہ اور کچھ تجاویز۔ میں نے زندگی میں اپنے قلم و فکر سے دو تین شخصیات کو نمایاں ترین مقام پر فائز کرنے کا دلچسپ مگر تلخ ترین تجربہ کیا ہے۔ جنرل مشرف کو صدر پاکستان بنانے کا عظیم سیاسی فکر… مگر جنرل مشرف کے ارد گرد کے ’’جنرلز‘‘ جن میں ایک جنرل احسان جو پہلے ڈی جی ایم آئی پھر ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ یہ میرے کالم صبح صبح پڑھتے یہ بات اپنے دفتر میں اکثر کالموں پر ’’فہم‘‘ حاصل کرکے ایک ماتحت نے بتایا مجھے کہ وہ کالم صبح صبح جنرل احسان کی ٹیبل پر رکھنے کے حکم کی تعمیل کیا کرتے۔ مگر ان سب نے میرے اقتدار میں آنے کا راستہ مکمل طور پر بند کیا حتیٰ کہ روزی روٹی تک کا معمولی راستہ نہ کھولا۔ میرے پڑوس میں یہ ’’جنرل ‘‘ 20 کنال کے پلاٹوں کے صرف معمولی قیمت کے بدلے مالک بن گئے جن پر آج انکے فارم ہاؤس تعمیر ہیں مگر ایک دانشور‘ مفکر‘ جس کے افکار سے یہ سارے ’’جنرلز‘‘ کامیاب ہوئے انہوں نے اس کو مکمل طور پر سیاسی و معاشی طور پر تباہ کر دیا۔ دوسرا تجربہ شہباز کو نواز شریف کی بجائے قائد مسلم لیگ بنانے کا تھا۔ کالم میں نے جس جراّت و دلیری کے ساتھ سرور پیلس میں ’’مقید‘‘ شہباز شریف کے لئے لکھے اس وقت جنرل مشرف کا علم اقتدار اور تکبر و غرور کی حالت میں تھا‘ اس کے جواب میں خود شہباز شریف نے اقتدار میں آ کر مجھے جس طرح مسلسل نظرانداز کیا‘ یہ تجربہ شاید زندگی بھر کا بہت بڑا داغ ہے۔ ان کے صوبائی اقتدار میں ان کے مشیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کے ذاتی علم میں تھا کہ ایک مہلک بیمار میں مبتلا ہوں جس کا علاج بہت مہنگا ہے مگر شہباز خود یا ان کے ’’مشیر‘‘ یہ ہمت نہ کر سکا کہ مجھے علاج معالجے کی سہولت ہی فراہم کرتے۔ وفاقی وزیر بننے کے بعد بھی پرویز رشید کا یہی دشمن رویہ موجود رہا۔ میرے بیٹے اور بھائی اور ایک آدھ ذاتی دوست میرے علاج کے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ ان تجربات کو اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ کئی بار موت کی وادی میں تھا۔ نیا تجربہ شدید نمونیہ کا جس کی وجہ سے میں اسلام آباد کے ایک مہنگے ترین ہسپتال میں ایک ہفتہ کے قریب داخل رہا۔ اب کی بار تو موت سچ مچ یقینی محسوس ہو رہی تھی۔ اس حالت میں بھی صرف ایک دو دوست کام آئے یا میرے بچوں سے تمام اخراجات برداشت کئے۔ حالانکہ میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنے قلم و فکر سے کون کون سی رب عظیم کی نعمت لا کر نہ پیش کی؟ مجھے شاہد خاقان عباسی سے بھی شدید شکوہ ہے۔ یہ تجربات سیاسی کارکنوں کے لئے ہیں جو قائدین کے لئے معاشی و سیاسی طور پر خود کو تباہ کرتے ہیں مگر ان کے قائد اقتدار میں آ کر ان کو منصب و عہدے دینے کی بجائے ہوس اقتدار میں مبتلا سیاسی طوائفوں کو ہی منصب عہدے مال و دولت سے نوازتے ہیں۔ کیا اسلام کا سیاسی چیئرمین شیخ انصر کی بجائے کوئی غریب ثقہ مسلم لیگی نہیں سکتا تھا؟ اب شیخ انصر عدالتی طور پر کالعدم میں وزیراعظم فوراً نیا پیشہ ورانہ امور کا ماہر سرکاری افسر چیئرمین سامنے لائیں۔ شیخ انصر کو عدالتی کارروائی کے نام پر مزید مسلط نہ ہونے دیں۔ ورنہ ان کا جرم عنداللہ بھی ناقابل معافی ہو گا۔
چونکہ میں علم نجوم و وجدان کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں لہٰذا ڈاکٹر محمد سلیم فون نمبر 03314905108 نے ماڈل ٹاؤن 29-G-6 لاہور سے اپنی کتاب ’’برج اور ستارے‘‘ بھیجی ہے۔ کتاب فنی اعتبار سے قابل مطالعہ ہے مگر جامد مذہبی مؤقف کی حامی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے تصویر کشی کو اسلام میں حرام لکھا ہے۔ مجھ سا طالب علم ایسے جامد غیر شرعی فکر کو کیسے قبول کر سکتا ہے۔ اب کچھ نئے افق جنرل قمر جاوید باجوہ پچھلے دنوں سینٹ کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اراکین کے ساتھ کھل کر بات چیت کی۔ اس سے پہلے سپیکر ایاز صادق نے درفنطنی چھوڑی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔
جنرل نے جن واشگاف الفاظ میں آئین‘ قانون‘ جمہوریت کے حق میں باتیں کیں اسے عسکری سول جمہوری تاریخ کا شاندار باب لکھا جائے گا۔ البتہ چیئرمین رضا ربانی جن کا ذاتی طور پر مداح ہوں سیخ پا ہوئے کہ بند اجلاس کی باتیں باہر کیوں آئیں؟ کچھ سنیٹرز نے کیوں اس پر لب کشائی کی؟ میرے خیال میں ان باتوں کا عوام اور میڈیا تک آنا ’’شر‘‘ کی بجائے ’’خیر کثیر‘‘ ثابت ہوا ہے۔ اگر یہ باتیں عوام کے سامنے بھی نہیں آنا تھیں تو رازداری کی باتوں سے عوام‘ جمہوریت کا کیا بھلا ہو گا؟ ایک دلچسپ امر سپیکر ایاز صادق‘ چیئرمین رضا ربانی کا صدر محترم کے ہمراہ امریکہ کے حوالے سے دلیرانہ مؤقف پیش کرنا ہے۔ میں اس مؤقف پر رضا ربانی کو شاباش دیتا ہوں۔ البتہ پی پی پی نے جس بدذوقی کے ساتھ چیئرمین کے مؤقف سے لاتعلقی اپنائی یہ تعجب خیز نہیں۔ آصف زرداری کی بہت سی ماضی کی باتیں اور حال کی امیدیں امریکہ سے جو وابستہ ہیں۔ برادرم سعد رفیق دلیر‘ متحرک و جرأت مند ہیں۔ ماضی میں وہ محمد خان جونیجو کے ساتھ تھے۔ تاہم وہ بعدازاں محمد نواز شریف کے نفس ناطقہ ہیں۔ ان کا پیار میرے دل میں بہت ہے تاہم انہوں نے جس غیر شائستہ انداز میں آخری تقریر فرمائی اس سے ان کا ذاتی امیج کافی منفی سامنے آیا ہے۔ لہٰذا ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف کا وضاحتی مؤقف بالکل بروقت اور درست ہے۔ 30 دسمبر کو مولانا فضل الرحمن نے فاٹا کانفرنس منعقد کی۔ فاٹا کے قبائلی عوام کو پاکستان کی غلامی سے آزادی دلانے کا اعلان کیا‘ چیئرمین نیب ماضی میں مولانا کی جنرل مشرف عہد میں صوبائی حکومت‘ اپوزیشن رہنما اسمبلی کے طور پر مالی فوائد کو سامنے لائیں۔ سی ڈی اے کے حوالہ سے وزیراعظم سے استدعا اگرچہ وزیراعظم عباسی ماضی میں سی ڈی اے افسران کو کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ ’’عوام دوست رویئے‘‘ اپنائیں۔ ان کا ایسا کہنے پر شکریہ۔ مگر گزارش ہے کہ جناب وزیراعظم خود ایک ’’مسئلہ‘‘ حل فرما دیں۔ بلڈنگوں پر بطور خاص کچھ فٹ زائد کورڈ ایریا پر بھی اتنے زیادہ جرمانے ہیں کہ مالکان اگر یہ جرمانے سی ڈی اے خزانے میں جمع کروا بھی دیں تب بھی افسران مجاز Complition سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں طویل ترین شنید میں رہتے ہیں۔ چونکہ ان کی جیب میں تو کچھ بھی نہیں جاتا۔ جب تک ان کی جیب میں کچھ نہ جائے بھلا کام کیسے ہو گا؟ اس کا ’’عملی طریقہ‘‘ یہ ہے کہ خزانے میں جرمانہ جمع کرانے کی بجائے متعلقہ افسران کو وہ سارا جرمانہ بطور نقد ہدیہ کر دیں۔ پھر دیکھیں فائل کو کس سبک رفتاری سے نوازا جاتا ہے؟ اس کا حل یہ ہے کہ جرمانے بہت واجبی سے کر دیں۔ یا ایک بار دل بڑا کر کے جرمانے معاف کر دیں۔ جناب عباسی صاحب ازراہ نوازش اس مسئلے کو ذاتی سمجھ کر حل کرائیں اور اہالیان اسلام آباد کی عوامی محبتیں‘ دعائیں زندگی بھر کے لئے لیں۔