جمہوریت کسی بھی شخص کی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دیتی، اس نظام میں کوئی شخص ایک منزل کا تعین کرکے اس کے حصول کی کوشش کرے، تائید الٰہی ساتھ ہو تو منزل سر ہو جاتی ہے۔ منزل تک پہنچنے میں کئی کٹھنائیاں اور مشکلات و آزمائشیں آتی ہیں۔ میرے خیال میں سیاست میں طے شدہ گول حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے ناممکن نہیں مگر منزل مقصود تک پہنچ کر اسے برقرار رکھنا زیادہ مشکل اورزیادہ دانشمندی کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں وزارت عظمیٰ سیاست اور جمہوریت میں آخری منزل سمجھتی جاتی ہے۔ میاں نوازشریف اس منزل تک بتدریج پہنچے مگر اس منزل پر متمکن رہنے کیلئے جس وزڈم اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا فقدان ہے یااعلیٰ ترین منصب پر پہنچ کر کسی کو خاطر میں نہ لانے کی عادت کہ قریبی ساتھی بھی ایک حد فاصل پر آجاتے ہیں۔میاں صاحب تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے اور تینوں باراس عہدے سے محروم کردیئے گئے۔۔ بہترین لیڈر شپ کیلئے علامہ اقبال ؒ نے تین اوصاف کا ذکر کیا ہے
نگہ بلند، جاں پُرسوز سخن دلنواز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
میاں نوازشریف اتحاد بنانے میں مہارت رکھتے ہیں حکومت سے باہر ہوں تو یہ سیاست سرچڑھ کر بولتی ہے۔ حکومت میں آئیں تو اتحاد برقرار رکھنے کی صلاحیت جیسے سلب ہی ہو جاتی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک کے ساتھی اتحادی تک شاید ان کی طرف سے آنکھیں ماتھے پر رکھنے کے باعث خود بھی آنکھیں بدل لیتے ہیں۔2014ء میں طاہر القادری اور عمران کے دھرنوں کے باعث اقتدار ڈانواں ڈول تھا۔ زرداری ان کا ساتھ نہ دیتے تو تین سال قبل نواز لیگ کی حکومت کا بوریا بستر گول ہو چکا ہوتا۔ زرداری نے حکومت کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہی زرداری ہیں جن کے ٹین پرسنٹ ہونے کے چرچے دہائیوں سے ہو رہے تھے۔2008ء میں ان کو صدر بنایا جا رہا تھا تو نواز شریف کی طرف سے مخالفت سامنے نہیں آئی۔2008ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی۔ پی ڈی ایم اے کے پلیٹ فارم سے میاں نوازشریف الیکشن کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھے۔ بینظیر اور آصف زرداری نے انہیں بائیکاٹ کے خاتمے پر آمادہ کیا۔ پی پی پی حکومت میں آئی تو کابینہ میں مسلم لیگ ن کے وزراء بھی شامل تھے ان سب نے مشرف سے حلف لیااور شہباز شریف کو بھی پی پی پی کے لوگ کابینہ میں لینے پر مجبور کیا گیا ۔ اُس وقت بھی زرداری کی اصلیت میاں نواز شریف پر واضح تھی مگر ان کے ساتھ رہے۔مگر جب انہوں نے میاں نوازشریف کے پاس ان کے بھائی میاں عباس شریف کی تعزیت کیلئے آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو نوازشریف نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اب میاں صاحب کو زرداری کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو وہ دامن چھڑا رہے اور ہاتھ جھٹک رہے ہیں۔ اب میاں نوازشریف کا تکیہ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی پر ہے۔ باقی اتحادی کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ بیرونی محاذ کی بات کریں تو سعودی عرب سب سے زیادہ قریبی دوست تھا۔ اس نے میاں نوازشریف کی حکومت کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا۔یمن وار چھڑی تو میاں نوازشریف نے خودشاہ سلمان کو فون کرکے اپنی فوج بھجوانے کی پیشکش کی مگر مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے بغیر فیصلہ کیسے کر لیا گیا، یوں معاملہ پارلیمان میں لانا پڑا جس نے فوج بھجوانے سے انکار کردیا۔ مولانا حکومت کے جگری اتحادی، کشمیر کمیٹی کے صدا بہار چیئرمین ان کو کس نے سعودی عرب فوج نہ بھجوانے کیلئے کھڑا کر دیا۔ سعودی عرب والے یہ سمجھنے میں شاید حق بجانب ہیں کہ مولانا نے سب کچھ حکومت کے ایما پر کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب کی بداعتمادی عیاں ہے۔ مصر کے السیسی کو سعودی عرب نے دس ارب ڈالر دیئے تھے۔41ملکی اتحاد بنا تو اس کا افتتاح ٹرمپ ، شاہ سلیمان اورسیسی نے مل کرکیا تھا جبکہ وزیراعظم نوازشریف پچھلی صفوں پر بیٹھے تھے، لکھی ہوئی تقریر گود میں لئے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔
اب وزارت عظمیٰ کا منصب سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے فیصلے پر خالی کرنا پڑا۔ اس کے بعد سعودی بار متعدد بار گئے مگر سعودی خاندان کے اہم افراد تو کیا جنرل (ر) راحیل شریف نے بھی ملاقات سے گریز کیا۔ میاں شہبازشریف اقتدار میں ہوں تو آئین جس حد تک اجازت دیتا ہے اسکے مطابق اپنے اندرونی اتحادیوں اور دوسرے ممالک کے لیڈروں سے تعلقات میں مزید قربت اور گرم جوشی لاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری ٹرم بھی بڑی خوش اسلوبی سے پوری کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدوں کی اجازت دی گئی ہے جس سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا۔ توانائی، صحت اور تعلیم کے معاملات میں سلجھائو آیا ہے، چین، برطانیہ، جرمنی، ترکی اور سعودی کے ساتھ کئی حوالوں سے تعاون اور شراکت داری میں اضافہ ہوا۔ شہبازشریف کی بیرون ملک پزیرائی ان کے والہانہ استقبال اور پروٹوکول سے نمایاں ہوتی ہے۔شہبازشریف کو سعودی طیارہ پاکستان سے آکے لے گیاایسا پروٹوکول تو کسی ملک کے سربراہ کو بھی شاید نہیں دیا جاتا۔ لگتا ہے سعودی عرب کی طرف سے یہ پذیرائی اور پروٹوکول ان کو اگلے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں وزیراعظم نامزد کرنے کے باعث دیا جا رہا ہے۔ ترک صدر بھی شہبازشریف سے مدینہ منورہ میں ملے۔ وہ بھی ان کی نامزدگی پر خوش ہیں۔ یہ شہبازشریف کی کامیاب سفارت کاری ہے کہ انہوں نے نے شاہی خاندان کے بااثر افراد سے ملاقاتوں میں میاں نوازشریف کے سعودی عرب کے دورے کی بھی راہ ہموار کردی۔نئے سال کی آمد پردونوں بھائی سعودی عرب میں ہیں۔جہاں دونوں کی شاہی خاندان کے اہم افراد سے ملاقاتیں متوقع جو پاک سعودی تعلقات میں اس دور جیسی گرم جوشی لا سکتی ہیں جس دور میں سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر گفٹ کیا تھا۔شہباز شریف نے جس طرح انتھک محنت اور شبانہ روز کاوش سے پنجاب کو ترقی کے عروج پر پہنچایا وہ دوسرے صوبوں ہی نہیں،مرکز کیلئے بھی قابل تقلید ہے،اب تو ان کے لئے بھی مرکز میں جانے اور وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جو قوم و ملک کے کئے نیک شگون اور ترقی و خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔پنجاب ترقی کی منازل اس لئے طے کرتا رہا اور کررہا ہے کہ:شہباز شریف کے کام کرنے کے انداز سے لگتا ہے کہ ان کیلئے دن کے چوبیس گھنٹے بھی کم ہے،پورے دن میں مختصر سا آرام اور پھر چل سو،بیرون ہوں تو بھی لگتا ہے یہیں پاکستان میں ہیں۔دن میں آن لائن اجلاس کی صدارت کرتے اور رہنمائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب سے سال نو کی آمد پراہل وطن کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے تہنیتی پیغام میں یقین ظاہر کیاکہ2018ء میںپاکستان ماضی کی نسبت زیادہ پرامن،روشن اور مضبوط ہوگا اور انشاء اللہ نیا سال روشن مستقبل، مضبوط معیشت، ترقی کی نوید اور امید بنیگا۔ قائدؒ کے ویژن کے مطابق پاکستان کو پرامن فلاحی ریاست بنانے کیلئے کوشاں رہیں گے۔ ہمیں سال2017ء کو الوداع اورنئے سال کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ہمارا عزم درپیش چیلنجز سے زیادہ بلند ہے۔