خوش آمدید 2018

ایک نئے این آر اوکی بازگشت کیوں سنائی دینے لگی ہے ۔ 2018 کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی قوتیں اکھاڑے میں جمع ہونے جارہی ہیں‘ تعلقات کے ملکی اور غیرملکی گھوڑے بھی اکھاڑے کے گرد جمع دکھائی دیں گے‘ چند ہفتوں میں ہارجیت کا فیصلہ سامنے آجائے گا‘ جیت کیلئے حق سچ پر ہونا ضروری نہیں‘ طاقت ،تعلقات پیسہ اور دبائو جیت کو یقینی بناتے ہیں۔ پرویز مشرف درجنوں مقدمات کے ہوتے ہوئے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لئے گئے وہ بیرون ملک آج بھی پہلے کی طرح بے پرواہ‘ چاق وچوبند‘ خوش وخرم‘ زندہ دل اور توانا ہیں ۔جون 2018 میں کوئٹہ کی سڑک پر ٹریفک سارجنٹ کو روندنے والا بلوچستان اسمبلی کا رکن ضمانت پر آزاد ہوگیا‘ دیت کی بھاری رقم دے کر ہمیشہ کیلئے آزاد ہوجائے گا۔ دسمبر2012 میں سندھ کے وڈیرے کے مادرپدرآزاد بیٹے شاہ رخ جتوئی نے شہباز خان نوجوان کو گولیوں کا نشانہ بنایا اسے بھی اس سنگین جرم کے باوجود ضمانت نصیب ہوئی۔ یہ دوکیس مثال کیلئے کافی نہیں؟شریف خاندان کے تین دہائیوں سے زیادہ مدت کے عالمی سطح بالخصوص سعودی عرب کے فرمانروائوں سے تعلقات رہے ہیں۔ مشرف کے عتاب کے بعد شاہ عبداللہ نے سینے سے لگایا تھا اور آج کے آڑے وقت ایک بار پھر سعودی حکومت نے شہبازشریف کو شاہی طیارہ بھیج کر مدعوکیا اور سربراہ مملکت جیسا پروٹوکول دیا تھاہے ۔ تھانیدار کے پاس تگڑی سفارش آجائے تو اس کا منہ خودبخود بند ہوجاتا ہے۔ شریف خاندان پر سعودی عرب کی شفقت کیا رنگ لاتی ہے اب شریفوں کیلئے مشرف جیسا دور نہیں لیکن اداروں سے ٹکرائو اور مقابلہ سخت ہے‘ سیاسی مخالف بھی سرجوڑکر بیٹھے ہیں‘ طاہرالقادری کو دور جدید کا نوابزادہ نصراللہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ آصف زرداری ضرورت پڑنے پر ہرکسی کو شیشے میں اتارنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے نوازشریف کو سعودی عرب سے کوئی این آر او نہ ملے۔ عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ شریف خاندان کو ایک اور این آر او دیا گیا تو سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا حدیبیہ کیسں نظرثانی اپیل پر اتفاق ہوا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مشرف کا کوئی رول دکھائی نہیں دیتا۔ نوازشریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں ہی مشرف کے ڈسے ہوئے ہیں۔ نوازشریف کا عزم ہے کہ وہ مشرف کو جلد کٹہرے میں لائیں گے‘ بلاول مشرف کو اپنی ماں کا قاتل قرار دے چکے ہیں۔ ادھر نیب سچ مچ فعال ہونے جارہا ہے نوازشریف کے خلاف نئے ریفرنس یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف بابر اعوان، اسلم رئیسانی اور وغیرہ کے خلاف تحقیقات شروع ہونے جارہی ۔نئے عوامی تحریک کی اے پی سی نے مشترکہ اعلامیہ میں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو 7 دن کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اے پی سی میں 40 سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں نے شرکت کی۔

اس بات کے طے ہونے کے بعد یہ2018 ء کے انتخابات کے بعد شہباز شریف آئندہ وزیراعظم پاکستان ہوں گے۔ مخالفین کے پاس حدیبیہ کیس کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں تدفین کے بعد شہبازشریف کے خلاف ماڈل ٹائون کیس ہی واحد مہرہ ہے جو باقی رہ گیا ہے اسے جس قدر اچھالا جاسکے گا‘ طاہرالقادری اور ان کے غیرفطری ہم نوا خوب اچھالیں گے۔ عوامی تحریک اور پیپلزپارٹی پنجاب بھر میں جلسے توکرسکتی ہیں۔ ووٹ بینک سے محروم ہیں۔ مقابلہ تحریک انصاف اور (ن) لیگ میں ہونے جارہا ہے جن کے سامنے شکست نوشتہ دیوار ہے انکے پاس دھرنے اور سٹریٹ ایجی ٹیشن کے کوئی راستہ نہیں ایسے شوروغوغا سے انہیں آکسیجن ملتی ہے۔ 2017 نوازشریف کیلئے ایک دردناک سال تھا ان کی قسمت میں تین بار وزیراعظم بننا اور تین بار ہی کرسی سے گرنا رقم تھا۔ 28 جولائی کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا سہارا لے کر عدالت عظمیٰ نے متفقہ طور پر نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے کی بناء پر نااہل قرار دیا۔ صادق اور امین کی شق کو جنرل ضیاء نے اپنے عہد آمریت میں آئین کا حصہ بنایا تھا‘ یہی ضیاالحق تھے جنہوں نے نوازشریف کو ان کے عہد شباب میں سیاسی جھولے میں بٹھایا تھا ۔ نوازشریف کے دور میں ڈان لیکس بھی ان کیلئے عتاب ثابت ہوسکتی تھی ان کے عہد میں عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک صفحے پر ہونے یا نہ ہونے کو بھی خوب اچھالا گیا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والی بات کو بھی خوب پذیرائی ملی۔
این اے 120 کے الیکشن کی جیت نے نوازشریف کو ایک بار پھر حوصلہ اور عزم عطا کیا‘ تھوڑی بہت خفگی کے باوجود سعودی رائل فیملی شریف فیملی کو ہی دوسرے پاکستانی سیاست دانوں پر ترجیح دیتی ہے۔ سعودی عرب کے دورہ کے نتیجے میں میں نوازشریف کا عدلیہ اور فوج کے خلاف غصہ ٹھنڈا ضرور ہوگا‘ نیب عدالتیں بھی ملائم پڑسکتی ہیں‘ ادھر پاک امریکی تعلقات میں اعتماد مفقود ہے ہمیں امریکہ پر اور امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں‘ دوستی باہمی اعتماد کا نام ہے ہمارے لئے مختص 255 ملین ڈالر روکنے پر بھی غور ہورہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک امریکہ کے سر پر سوار ہے‘ امریکہ کو ہمارا چین پر اقتصادی انحصار بھی ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہا۔ ڈومور کا تقاضا تومسترد ہوچکا ہے اس استرداد پر بھی امریکہ کو مرچیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ کوئی سعودی‘ امریکی یا چینی ہماری طاقت کے اصل مرکز کو ہلاسکتے ہیں نہ اس پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ نوازشریف اور طاقت کے مرکزکے مابین ضامن کی ضرورت ہے۔طاہرالقادری یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ آئندہ دھرنے میں ایک جانب زرداری اور دوسری طرف عمران خان بٹھا کر دکھائیں گے۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید کے بارے میں نہیں بتایا کہ وہ انہیں اپنے سامنے یا پیچھے بٹھائیں گے‘ ان کا کنٹینر وزیراعظم کے طیارے کی طرح سٹینڈ بائی ہے‘ ماڈل ٹاؤن کیس کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے ۔ (ن) لیگ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے وزیراعظم کے عہدے کیلئے شہباز شریف کی نامزدگی کا ابھی فیصلہ نہیں کیا لیکن کمیٹی اپنے قائد نوازشریف کے سامنے کوئی اختلافی نوٹ رکھنے کی کبھی بے ادبی نہیں کریگی۔ (ن) لیگ میں شہباز شریف کے مقابل کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ چوہدری نثار علی خان اپنی شخصیت میں عدم خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے باعث دلوں میں جگہ نہ بناسکے۔ شہباز شریف پنجاب سپیڈ کے نعرے کو پاکستان سپیڈ میں بدلنے جارہے ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال کرسمس ہیپی ’’یا میری،، کرسمس نہیں تھا‘ کرسمس مسیحی برادری کے مذہبی کیلنڈر کا دوسرا اہم ترین تہوار ہے۔ کوئٹہ میں داعش کے چرچ پر حملے کے بعد کرسمس کو میری کون کہہ سکتا تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے ٹرمپ کے فیصلے نے عالم اسلام میں بے چینی پیدا کررکھی ہے‘ مذمت ،قرارداد یں اور اجلاس فیصلے ابھی تک ٹرمپ کو ٹس سے مس نہیں کرسکے ایسے ماحول میں غیر مسلموں کیلئے سکیورٹی ایشوز زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں ۔ پاکستان میں کرسمس کے تہوارکو پرامن اور خوشگوار رکھنے کیلئے حکومت ہی نہیں مسلمانوں کے ہرمکتب فکرکے لوگ بھی مسیحی بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے اور کھڑے ہیں۔ 2013 میں پشاور میں چرچ پر دو حملوں کے بعد لاہور میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر اظہاریکجہتی کیلئے ہاتھوں کی زنجیر بنائی تھی لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری بات اقلیتی بھائیوں کو قومی دھارے میں پہلے سے شریک کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اوپن میرٹ پر بلاتخصیص اور بلاامتیاز مذہب‘ عقیدہ‘ رنگ نسل ملازمتیں دینا ہے۔ اقلیتوں سے سلوک کے حوالے سے پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانا ہے تاکہ وہ روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ شرمناک سلوک کرنے والے شرم سے ڈوب مریں اور جہاں جہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے ان کے سر بھی شرم سے جھکنے چاہئیں۔ دنیا کے لئے انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا پیغام بر ہونے کے دعویدار ٹرمپ کو فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں مودی حکم پر ہونے والی بربریت دکھائی کیوں نہیں دے دیتی۔

ای پیپر دی نیشن