حدیبیہ پیپر ملز اور عمران خان کی نااہلی کیس ملے جلے ردعمل کا اظہار

Jan 02, 2018

شہزادہ خالد

سپریم کورٹ کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز اور عمران خان کی نااہلی کیس کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں پر آئینی وقانونی ماہرین نے اظہار خیال کیا۔ عمران خان‘ جہانگیر ترین کیس اور حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمہ کے فیصلوں پر آئینی وقانونی ماہرین نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ لاہور بار کے صدر تنویراختر چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی اور قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو فیصلے بروقت کرنے چاہئیں کیونکہ denied justice ہوتاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی مقدمات کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو دیگر مقدمات بھی جلد نمٹانے چاہئیں۔ اس وقت عدلیہ پر سیاسی مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق عہدیدار راجہ جاویداقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ بھی کرتی ہے آئینی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے زائد المیعاد ہونے کی بنا پر کیس خارج کیا۔ نیب نے تاخیر سے اپیل کی،تکنیکی بنیاد پر ختم کیا گیا لیکن قانون کی نظر میں ٹیکنیکل بنیاد پر فیصلہ کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ سپریم کورٹ کو میرٹ پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا‘ تکنیکی بنیادوں پر سماعت نہیں کرنا چاہیے تھی۔ یہ کیس شہادت کا نہیں تھا میرٹ کا تھا۔ دیکھنا چاہیے تھا کہ گرائونڈ کیا ہے۔ نیب تو پہلے ہی اپیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نیب نے تو سپریم کورٹ کے حکم پر اپیل کی لیکن سپریم کورٹ نے اپنے حکم پر کی گئی اپیل کو ہی ٹائم بارڈ (زائد المیعاد) قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قانون کی نظر میں اچھا فیصلہ نہیں کیا۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو انہوں نے قانون کے مطابق قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے مطابق حنیف عباسی متاثرہ شخص نہیں ہیں۔ غیرملکی امداد کے معاملے میں حکومت پارٹی بنے اور الیکشن کمشن غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ عمران خان کے کیس میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے اثاثے ظاہر کیے ہیں اور منی ٹریل ثابت کردی ہے۔ حنیف عباسی کا عمل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ کیس انہوں نے نوازشریف کیس کے جوابی حملے کے طور پر دائر کیا ہے۔ جہانگیر ترین کو نااہل،عدالت میں جھوٹ بولنے اور کمپنیاں چھپانے پر کیا۔ ترین نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور سکیورٹی ایکسچینج میں 7کروڑ روپے جرمانہ ادا کیا۔ راجہ ذوالقرنین سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی ساکھ ختم کرچکی ہے۔ جج پریس بریفنگ دیتے ہیں‘ یہ ججوں کا کام نہیں ہے جج فیصلے کے ذریعے بولتے ہیں۔ انہوں نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے بارے میں کہا کہ یہ تو کیس ہی نہیں ہے‘ یہ تو مکمل ہوچکا تھا۔ اسے ایک سازش کے ذریعے اچھالا گیا اور ٹائم بارڈ کیس کو ری اوپن کیا گیا۔ اس کیس کو نوٹس کرنا اور سماعت کرنا درست نہ تھا لیکن بحرحال فیصلہ درست ہوگیا۔ عمران خان کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ تو عوام پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ عمران خان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات پر الجھی ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ انہیں ٹھیک نااہل کیا گیا ہے اور عمران خان کو بھی کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ ایک فیصلہ سپریم کورٹ کا آج کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لوگوں کو نااہل کرنا سپریم کورٹ کا اختیار نہیں ہے‘ خواہ نوازشریف ہو‘ عمران خان ہو یا کوئی اور سیاسی شخصیت ہو۔ نوازشریف کو نااہل کرنا بھی سپریم کورٹ کا اختیار نہیں تھا۔ یہ اختیار صرف عوام کا ہے‘ ووٹوں کے ذریعے عوام اہل یا نااہل کرتے ہیں۔ سینئر ایڈووکیٹ ہائیکورٹ سید رئیس الدین احمد نے کہا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز والا فیصلہ عوامی مفاد کے مطابق نہیں ہے۔ اس فیصلے سے آئندہ کے لئے ایک مثال بن سکتی تھی لیکن عدلیہ نے مصلحت سے کام لیا ہے۔ یہ کیس زائد المیعاد نہیں تھا کیونکہ اسی قسم کے فیصلے میں چیف جسٹس(ر) افتخارچودھری نے شریف برادران کو ریلیف دیا لیکن آج اس فیصلے کو اس سے بالکل الٹ کر دیا ہے۔ اس کیس کو ری اوپن ہونا چاہیے تھا، طاقتور کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی مناسب فیصلہ ہے۔ جہانگیر ترین کی نااہلیت بنتی تھی اور عمران خان کی نہیں بنتی‘ یہ فیصلہ بالکل آئینی وقانونی ہے اور تمام مصلحتوں سے بالاتر ہے۔خواجہ محمود احمد سابق چیئرمین این آئی آر سی، مشفق احمد خاں‘ عارف ملہی‘ چودھری ولایت ایڈووکیٹ سپریم کورٹ‘ ندیم بٹ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ نے کہا کہ قانونی طور پر حدیبیہ پیپلز ملز کا فیصلہ زائد المیعاد ہے لیکن نوازشریف کو سعودی عرب سے واپس آنے پر ریلیف دیا گیا‘ وہ بھی قانونی طور پر بعداز میعاد تھا۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کا کیس ایک جیسا تھا لیکن ایک کو ریلیف اور ایک کو سزا دے دی گئی۔ یہ فیصلہ آنے کی افواہیں پہلے ہی گردش کر رہی تھیں۔

مزیدخبریں