’’بنگلہ دیش ماڈل،، کے اطلاق کی خواہش

Jan 02, 2019

نصرت جاوید

تحریک انصاف کے اتاولے پن کی وجہ سے ہم گزشتہ کئی دن سندھ پر ’’تبدیلی‘‘ کی ممکنہ یلغار کا تماشہ دیکھنے میں مصروف رہے۔ دریں اثناء یاد ہی نہیں رہا کہ جنوبی ایشیاء میں بنگلہ دیش نام کا بھی ایک ملک ہے۔ یہ 1947سے 1971 تک مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کئی حوالوں سے قیام پاکستان کی بنیاد بھی تھی۔برطانوی استعمار نے فقط اپنی انتظامی ضروریات کے لئے بنگال نامی صوبے کو جو کبھی آج کے مغربی اور مشرقی بنگال کے علاوہ بہاراور اڑیسہ کے وسیع تر علاقوں پر بھی مشتمل تھا1905میں تقسیم کردیا تھا۔ اس تقسیم کو ہندومتوسط طبقے نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس انکار کے سبب 1857کے بعد برطانوی استعمار کے خلاف ایک اور مسلح جدوجہد کے امکانات بھی نظر آنے لگے۔ انگریز گھبرا گیا۔ اس نے تقسیم کا فیصلہ واپس لیا تو بنگالی مسلمانوں کو اپنی جداگانہ شناخت کا شدت سے احساس ہوا۔ اسی باعث مسلم لیگ کا باقاعدہ قیام بھی ڈھاکہ میں ہوا تھا۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جداگانہ شناخت کی بدولت بالآخر 1947میں قائم ہوئے پاکستان سے علیحدگی کے رحجانات بھی مشرقی بنگال ہی میں ابھرنا شروع ہوئے اور بالآخر 1971ہوگیا۔کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بنگال ان دنوں جو سوچ رہا ہے مستقبل میں پورا برطانوی انڈیا بھی وہی سوچنا شروع ہوجائے گا۔ خدا کرے کہ اس دور میں یہ تصورغلط ثابت ہو۔کیونکہ گزشتہ اتوار کے روز بنگلہ دیش میں جو انتخابات ہوئے ہیں ان کے نتائج سے میں گھبرا گیا ہوں۔ بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں300 نشستیں ہیں ۔ حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے ان میں سے 288پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس جماعت کو قومی اسمبلی میں 96 فی صد اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس بھاری بھر کم اکثریت کو ’’شمالی کوریا‘‘ پر مسلط جماعت کی قوت کے برابر ٹھہرایا۔ کئی سیاسی مبصرین کو مشرق وسطیٰ کے آمروں کی جانب سے رچائے وہ ’’ریفرنڈم‘‘ یاد آگئے جن کی بدولت حسنی مبارک جیسے آمروں کو 90 فی صد سے زائد عوام کی حمایت میسر ہوئی دکھائی جاتی تھی۔ حسینہ واجد گزشتہ دس برسوں سے حکومت میں ہے۔ بنگالیوں کو ہمیشہ متلون مزاج سمجھا گیا ہے۔ Incumbencyتو ٹھنڈے مزاج معاشروں میں بھی حزب مخالف کو پروان چڑھانے میں مدد دیتی ہے۔حال ہی میں وفاقی حکومت کے چار سال مکمل کرنے کے بعد نریندر مودی کی جماعت کو بھارت کی نام نہاد ’’کائوبیلٹ‘‘ کے تین اہم ترین صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حسینہ واجد کے دس سال بھی لیکن متلون مزاج ٹھہرائے بنگالیوں کو متحرک نہ کر پائے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں کسی حکمران جماعت کی ا تنے برسوں تک مسلسل حمایت شاذہی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ بات اگرچہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حسینہ واجد نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ملک کی اپوزیشن کو وحشیانہ جبر کا نشانہ بنارکھا ہے۔ میڈیا کو تابڑ توڑ حملوں سے گونگا بنادیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی ناپسندیدہ بیانیے کے فروغ کو روکنے کے لئے سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں۔ حزب مخالف کی سب سے مضبوط جماعت کی سربراہ اور سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیاء ان دنوں کرپشن الزامات کے تحت جیل میں ہے۔گلیاں سنجیاں ہیں۔ فقط حسینہ واجد اور اس کی عوامی مسلم لیگ کا ڈنکا بج رہا ہے۔نئے سال کی پہلی صبح کو اُٹھ کر بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات کی یاد آئی تو خیال یہ بھی آیا کہ ہمارے ہاں بھی کئی دنوں سے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کی خاطر یک جماعتی بالادستی کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس ضمن میں چین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ کئی دوستوںکا یہ اصرار بھی ہے کہ پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے یک جماعتی آمریت ممکن نہیں۔ معاشی استحکام کو یقینی بنانے والا سیاسی نظام لانے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں صدارتی نظام متعارف کروایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم سے جان چھوٹے۔ صوبوں کے بجائے ’’ڈویژنوں‘‘ کو توانا کیا جائے۔ ضلعی حکومتوں کا بندوبست ہو۔حسینہ واجد کی تیسری کامیابی کے بعد شاید چند دوست یہ امید باندھیں کہ ’’استحکام‘‘ پارلیمانی نظام کی بدولت بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ہمارے ہاں دس سال سے ’’باریاں‘‘ لینے والی جماعتیں ابتری کا شکار ہوچکیں۔نواز شریف جیل جاچکے ہیں۔آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ یہ ہوگیا تو گلیاں پاکستان میں بھی سنجیاں ہونا شروع ہوجائیں گی۔ہمارے ہاں بھی فقط عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا ڈنکا بجنا شروع ہوجائے گا۔اس امکان پر غور کیا تو دریافت ہوا کہ حسینہ واجد نے قوم پرست عصبیت کو ابھارتے ہوئے ان تمام قوتوں کو وحشیانہ جبر کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا جنہوں نے اس کے باپ شیخ مجیب الرحمن کا تختہ الٹ کر اسے قتل کیا تھا۔بات وہیں تک محدود نہ رکھی۔ بتدریج ان تمام کرداروں کو چن چن کر عدالتوں کی معاونت سے بڑھاپے میں بھی سولیوں پر چڑھایا جو 1970کے ہنگامی سال میں پاکستان کو متحدرکھنے کے خواہاں تھے۔ ایسے افراد کو ’’غدار‘‘ ثابت کرنے کے بعد حزب مخالف کی تمام جماعتیں ان کی سوچ کی نمائندہ ٹھہرادی گئیں۔قومی عصبیت فسطائیت کی صورت اختیار کرنے لگی۔حسینہ واجد مگر قومی انتہا پسندی کے تعصب کے ساتھ فقط اپنے سیاسی مخالفین کی بیخ کنی ہی میں مصروف رہتی تو شاید کامیاب نہ ہوپاتی۔اس کی اصل مہارت یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کو جبر تلے لاکر خاموش وملیامیٹ کرتے ہوئے بھی اس نے بنگلہ دیش کی معیشت میں رونق بڑھانے پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی۔بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا واحد ملک ہے جہاں اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح مسلسل 7 فیصد ہے۔ امریکہ اور یورپ کے برانڈڈ اسٹورز میں موجود ملبوسات کی اکثریت ’’میڈاِن بنگلہ دیش‘‘ نظر آتی ہے۔ کپاس درآمد کرنے والے ملک نے جسے کئی برسوں تک پاکستان پر ’’اقتصادی بوجھ‘‘ قرار دیا گیا تھا آبادی میں اضافے کو کنٹرول کیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس کے اشاریے متاثر کن ہیں۔بنیادی طورپر معاشی استحکام اور رونق ہی نے بنگلہ دیش میں پڑھے لکھے متوسط طبقات کی ایک بے پناہ کھیپ تیار کی ہے جو حسینہ واجد کی وحشیانہ قوم پرستی کے نظریات کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے۔ملکی اور غیر ملکی سیٹھ اس کی پالیسیوں سے بے تحاشہ مطمئن ہیں۔اس اطمینان کے باعث وہاں کی Deep Stateکے پاس بھی اپنا کھیل کھیلنے کے امکانات باقی نہیں رہے۔وگرنہ ایک زمانے میں وہ اتنی کامیاب تھی کہ ہمارے ہاں بھی اکثر نام نہاد ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ کے اطلاق کی خواہش کا اظہار ہوتا تھا۔حسینہ واحد کی تیسری انتخابی کامیابی کے بعد مگر ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ کی ایک نئی صورت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف اس ماڈل سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرے۔ ’’کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کی خواہش ہی میں مبتلا نہ رہے۔ معاشی محاذ پر بھی تھوڑی رونق لگانے پر توجہ دے۔

مزیدخبریں