اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ڈیم نہ بنا اور متاثرین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر احتجاج کروں گا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے نام پر کھانے کیلئے ایرا بنا دیا گیا۔ منگل کو سپریم کورٹ میں زلزلہ متاثرین امداد کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لٹے پٹے لوگوں کی امداد پوری دنیا سے کی گئی۔ دینے والے ہاتھ پل بھر میں لینے والے بن گئے۔ متاثرین پرایٹم بم نہیں گرا تھا قدرتی آفت آئی تھی۔ زلزلہ متاثرین کیلئے امدادی رقم حکومت کے پاس امانت تھی لیکن حکومت نے متاثرین کی امانت میں خیانت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں چارگھنٹے کا سفرکرکے بالاکوٹ جا سکتا ہوں تو وزیر اعظم کیوں نہیں۔ ٹین کی چھتوں میں آج کی سردی میں رہنا ممکن نہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سکول اور ہسپتال بھی نہیں۔ وزیراعظم کو سیشن جج کی رپورٹ بھجوائی لیکن کچھ نہ ہوا۔ وفاقی کابینہ خود بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھے۔ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مسائل حل ہوں اور ڈیم نہ بنا اور متاثرین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر احتجاج کروں گا۔ درخواست گزار نے سماعت کے دوران کہا کہ وزیراعظم خود شوگراں گئے لیکن بالاکوٹ متاثرین کے پاس نہیں آئے۔ وزیراعظم کے دل میں درد ہوتا تووہ متاثرین کے پاس آتے۔ ہماری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ملتان منتقل ہونے والی امدادی رقم واپس کی جائے۔ ڈی جی ایرا نے کہا کہ ایرا نے 10 ہزار منصوبے مکمل کئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایک غسل خانہ بھی بنایا ہے تو بتا دیں۔ کے پی کے حکومت خود پر بہت فخرکرتی ہے لیکن کے پی کے حکومت نے متاثرین کے لئے کچھ نہیں کیا۔ سرد موسم میں برفباری میں لوگ رہ رہے ہیں۔ متاثرین کی بحالی کا حکم دینا کیا اختیارسے تجاوز ہے۔ زمین کا تنازع بھی میرے دورے کے بعد حل ہوا۔ مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوسٹ ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ متاثرین کا پیسہ میٹرواور بی آئی ایس پی پرخرچ ہوا۔ سڑک بنی نہیں، سکول ہسپتال بنا نہیں، کیا یہ منصوبے زیر زمین بنائے گئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو معاملہ کا علم ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس صوبے نے سب سے زیادہ پیار کیا اسکا ہی وزیراعظم کو پتہ نہیں۔ ہمیں وزیراعظم کا جواب چاہیے۔ عدالت نے چیئرمین ایرا لیفٹیننٹ جنرل عمرحیات کو پیر کے روز طلب کرتے ہوئے مکمل شدہ منصوبوں کی تفصیلات سمیت بی ایس پی اور میڑو منصوبوں کیلئے امدادی رقم منتقلی کی تفصیلات بھی طلب کرلیں جبکہ فنڈز کی فراہمی کی تفصیلات سے بھی آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت بتائے متاثرین کے لئے کتنی امداد آئی اور کہاں گئی۔ آگاہ کیا جائے حکومت کا متاثرین کی بحالی کے لئے کیا منصوبہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم سے کہیں جا کر ان کے حالات دیکھ کر آئیں، اگر میں 4 گھنٹے کے نوٹس پر سفر کرکے بالاکوٹ جا سکتا ہوں تو وزیراعظم کیوں نہیں جا سکتے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو دس دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ دریں اثناء سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں اور اکائونٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے 14 جنوری کو ایف بی آر اور ایف آئی اے سے دبئی جائیدادوں پر رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے ماہانہ رپورٹ فائل کرنی تھی، کیا وقار احمد جرمانے کی رقم ادا کر رہے ہیں؟ جس پر وقار احمد کے وکیل نے کہا کہ وقار احمد نے 6 کروڑ کی رقم ادا کر دی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ 21 ماڈل کیسوں پر کیا پیش رفت ہوئی؟ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے چیئرمین نے بتایا کہ تمام کیسوں پر کارروائی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر دیا گیا دبئی جائیدادوں پر 3 ہزار ارب مل سکتے ہیں، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ 16 کروڑ کی ادائیگی ٹیکس کی مد میں وصول ہو چکی ہے۔ 14 کروڑ کی ادائیگیوں کا مزید تعین کر لیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ علیمہ خان نے 29 کروڑ سے زائد ادا کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا علیمہ خان نے رقم ادا کر دی ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ علیمہ خان کے پاس 13 جنوری تک رقم ادا کرنے کا وقت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دبئی میں جائیداد خریدی گئی۔ پاکستان سے پیسہ اڑا کر باہر لے جایا گیا۔ جائیدادوں کی معلومات ڈی جی ایف آئی اے نے حاصل کیں۔ ایف بی آر جس رفتار سے کام کر رہا ہے یہ کام کب تک مکمل ہوگا۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ انشا اللہ ایف بی آر متحرک انداز سے کیسز کو چلائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر پر ہم ذمے داری ڈال رہے ہیں، خدا کا واسطہ ہے ملک کا پیسہ خزانے میں لانے میں کردار ادا کریں۔ چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو مزید بتایا کہ دبئی جائیدادوں پر ملک بھر میں دفاتر قائم کر دئیے۔ 775 افراد نے جائیدادوں پر بیان حلفی دے دیے۔ 13 جنوری کو عدالت کو مفصل رپورٹ جمع کروائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 60 کیس ایسے ہیں جن میں جائیدادیں زیادہ ہیں۔ 60 کیسوں سے زیادہ وصولی کا امکان ہے۔ عدالت نے 14 جنوری کو ایف بی آر اور ایف آئی اے سے دبئی جائیدادوں پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 14 جنوری تک ملتوی کردی۔