ڈاکٹر سہیل ثقلین میرِ کاررواںبن گئے

کسی بھی معاشرے میں ’’مسیحا‘‘ کا لفظ معتبر ہی نہیں، قابل احترام بھی ہوتا ہے لیکن اب حال یہ ہے کہ یہ ’’مسیحا‘‘ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ جہاں ملتے ہیں اُن معاشروں کیلئے بڑی طمانیت اور اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ مسیحائی کو طب سے جوڑا گیا ہے، ان کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہے۔ اگرچہ عوام و الناس کو انکے بارے اکثر شکایات رہتی ہیں لیکن ان ’’مسیحائوں‘‘ میں ایسے ’’مسیحا‘‘ بھی شامل ہیں جن کا پیشۂ طب میں بہت مثالی کردار ہے۔ نظر دوڑاتا ہوں تو لاہور کے چند گِنے چنے ناموں میں ایک معتبر اور بڑا نام ڈاکٹر سہیل ثقلین کا سامنے آتا ہے۔ اُ ن سے نہ ملا ہوتا تو شاید ہرگز میرا یہ گمان نہ ہوتا جو میں نے اُنکے بارے میں قائم کر لیا ہے، یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر سہیل ثقلین جیسی شخصیات نے ہی میڈیکل کی شان کو بڑھایا ہوا ہے، اُن کاہونا ہمارے لیے اطمینان، عزت اور فخر کی بات ہے۔ محترم مجیب الرحمن شامی کی وساطت سے ’’جناح ہسپتال‘‘ پہنچا تو وہاں میرا جس شخصیت سے رابطہ ہوا وہ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سہیل ثقلین تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے میرے اس تاثر کو زائل کیا کہ سب ڈاکٹر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ تپاک ، محبت اور اخلاق مل جائے تو کسی بھی انسان کو اور کیا چاہیے۔ پھر ایک مریض کو یہ سب چیزیں میسر آجائیں تو اُسے نئی زندگی مل جاتی ہے۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ شاید یہ شامی صاحب کے فون کا کمال ہے کہ ایم ایس صاحب اتنی محبت سے مل رہے ہیں۔ لیکن پھر بات سمجھ میں یہ آئی کہ نہیں، ڈاکٹر سہیل ثقلین فطرتاً ہی اچھے ہیں ۔ اُن کا تپاک، محبت اور خلوص صرف میرے لئے ہی نہیں تھا بلکہ وہ ہرآنے والے کے ساتھ یہی خلوص والا رویہ اپنا رہے تھے۔کسی کی مشکل حل کرنا، کسی کو یہ احساس دلانا کہ وہ کتنا اہم ہے۔ میرے لئے اور بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ ’’جناح‘‘ میں اپنے علاج کے لیے گیا تھا۔ علاج تو شروع ہو گیا لیکن ڈاکٹر سہیل ثقلین سے ملاقاتیںبھی تواتر کے ساتھ ہونے لگیں پھر مجھ پر اُن کی شخصیت کے کئی ’’راز‘‘ کھلتے چلے گئے۔ ایک بار پہلے بھی اُن پر لکھنے کا موقع ملا، لیکن کئی ایسے پہلو رہ گئے جو میں نہ لکھ سکا۔ اس لکھے گئے کالم کے حوالے سے ہمیشہ ایک تشنگی محسوس کی۔ رات جب نئے کالم کے حوالے سے موضوع کے چنائو کا فیصلہ کر رہا تھا تو پھر خیال آیا کہ انسانیت کے محسنوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ استاد ہو، ڈاکٹر ہو، ادیب یا پھر کوئی شاعر۔ یہ معاشروں اور انسانیت کے اصل معمار ہوتے ہیں۔ انہیں بھولنا چاہیے نہ ہی فراموش کرنا چاہیے۔ڈاکٹر سہیل ثقلین انسانیت کے انہی معماروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے طلب کے شعبہ میں گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہم بجا طور اُن کی خدمات پر ناز کر سکتے ہیں۔ ہسپتالوں میںمینجمنٹ کا شعبہ ہویاغذائیت کا۔ڈاکٹر سہیل ثقلین کا نام ان شعبوں کے حوالے سے نہایت معتبر حیثیت اختیار کرجاتاہے۔انہوں نے دنیا کی اعلیٰ ترین درسگاہوں مثلاً کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج،یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ،یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا، ٹوکیو یونیورسٹی جاپان اورہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میںطالب علموں کو پڑھایا۔وہاں تربیت کے مراحل بھی طے کئے۔ جبکہ ناک، کان،گلہ کے امراض میںپوسٹ گریجویشن کے بعدصحت کے دیگرشعبوں یعنی بہبود آبادی، غذائیت اور سماجی فلاح میں بھی ڈویلپمنٹ پلاننگ اور پالیسی میکنگ سے اپنی خداداد صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ میڈیکل ڈاکٹرہونے کے باوجود پنجاب، گلگت بلتستان اور وفاقی سطح پر کئی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ ان عہدوں میں ایڈیشنل سیکرٹری صحت پنجاب، سیکرٹری صحت و بہبود آبادی، جائنٹ سیکرٹری صحت و کیبنٹ ڈویژن، ایم ڈی پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن اور ممبر پلاننگ و ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے عہدے شامل ہیں۔ڈاکٹر سہیل ثقلین نے ڈرگ رولز، پیور فوڈ رولز، بلڈ سکریننگ، تمباکو نوشی سے ممانعت اور صحت سے متعلقہ دیگر کئی قوانین میں ترامیم اور ان سے متعلق نئی قانون سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح کئی نئے اداروں کاقیام بھی عمل میںلائے اور بہت سے فلاحی پروگراموں کا آغاز کیا۔ چلڈرن ہسپتال لاہور میںالائیڈ ہیلتھ سکول اُنہی کی کاوشوں کانتیجہ ہے۔ ایمرجنسی سروس 1122کا قیام، بی ایس سی نرسنگ، جناح برن سنٹر کا قیام بھی ڈاکٹر سہیل ثقلین ہی عمل میں لائے۔ ڈلیوری سٹیندرڈز میں افرادی قوت کی تربیت، گلگت بلتستان فارمیسی کونسل، کمیونٹی مڈ وائف سکول گلگت، فیڈرل میڈیکل کالج اسلام آباد کی داغ بیل بھی ڈاکٹر سہیل ثقلین ہی کی مرہونِ منت ہے۔ متعدد ایسے اداروں کو بھی فعال بنایا جو اپنی افادیت کھو چکے تھے۔ میوہسپتال میں آرتھو پیڈک ورکشاپ اور سکول، ڈی جی ہیلتھ پنجاب کا آفس اور پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن کو دوبارہ فعال بنانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لئے مشینری اور ایکوئمپنٹ کو مکمل طور پر 24گھنٹے آپریشنل رکھنے کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دیا۔
پنجاب کے ہسپتال ہوں یا وفاق کے۔لوگ آج بھی ان انتظامات اور خصوصی اقدامات کو دیکھ کر جس شخص کو یاد کرتے ہیں وہ ڈاکٹر سہیل ثقلین ہی ہیں۔گزشتہ سال پلاننگ اور ڈویلپمنٹ بورڈ میں دن رات کی کاوشوںسے انہوں نے ماں بچہ کی صحت کے شعبوں کو زیادہ موثر اور فعال بنا دیا ہے۔ غذائیت کے شعبے میں گلوبل بریسٹ فیڈنگ کی لانچنگ اور اس شعبہ میں ملٹی سیکٹورل سنٹر کا قیام ڈاکٹر صاحب ہی کی سوچ اور محنت کا نتیجہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن