اس بات میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان میں منصفانہ احتساب کی کوئی روایت پچھلے 72 برس سے رائج نہیں ہو سکی اور جس حکومت نے بھی احتساب کانعرہ لگایا تو وہ یکطرفہ ہی رہا۔ اس میں اپنے مخالفین کو رگڑا لگایا گیا مگر وہ سیاستدان جو طاقتور حکمرانوں کے ٹائوٹ بن گئے تو اُنہیں احتساب کے عمل سے مبّرا رکھا گیا۔ علاوہ ازیں مقتدر حلقوں کے بااثر افراد کے احتساب کی کوئی روایت نہیں۔ کیونکہ جنرلز اور ججز کا احتساب انکے اپنے ادارے کرتے ہیں اور کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر اُنہیں باعزت طور پر پنشنر کا حقدار قرار دیکر ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے اور ان سے یہ سوال کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوتی ہے کہ اُنکے اثاثے اُنکے وسائل سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان میں سیف الرحمن کا احتساب کمیشن ہو، جنرل پرویز مشرف کا نیب ہو یا حالیہ نیب ، ان تمام ادوار میں احتساب کے ادارے بالخصوص نیب ہمیشہ متنازعہ ادارہ ہی رہا۔ عمران خان کی موجودہ حکومت اقتدار میںکرپشن کے خاتمے اور موثر احتساب کے نعرے پر ہی وجود میں آئی مگر عوام نے احتساب کے حوالے سے جو توقعات درست یا غیر درست طور پر موجودہ حکومت سے وابستہ کر لی تھیں وہ پوری دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ میں نیب نے اپوزیشن کی سیاسی قیادت اور سرکاری افسران کے کیسز میں ہی تیز رفتاری دکھائی ہے۔ جس کی وجہ سے احتسابی عمل کی کوئی خاص قدرو قیمت نہیں رہی ہے۔ حکومت کے حمایتی سیاستدانوں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کا احتساب سیاسی مجبوری اورمصلحت کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے یکطرفہ احتساب کے تاثر کو بے حد تقویت ملی۔ جس بیورو کریٹ نے شہباز شریف کی قائم کردہ کمپنیوں میں کام کیا اُن سب پر نیب نے سو فیصد یقین کر لیا کہ سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُنکے ساتھ کام کرنے والے بیورو کریٹس نے بھی لازماً کرپشن کی ہو گی۔ اگرچہ چند ایک طاقتور بیوروکریٹس کے اثاثے انکی آمدنیوں سے کئی گناہ بڑھ گئے اوران پر یہ شک کیا جا سکتا ہے کہ شاید انہوں نے یہ اثاثے کرپشن یا کک بیکس سے بنائے ہیں۔ مگر بہت سارے بیورو کریٹس اور سرکاری افسران کو محض اس لیے بے گناہ شکنجوں میں لے لیا گیا کہ انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ کام کیا اور انہوں نے بطور چیف ایگزیکٹو افیسرز ان معاہدہ پر دستخط کئے۔ حالانکہ مکمل تحقیقات اور انکوائریوں میں یہ بات واضح ہو گئی کہ ان افسران کی اکثریت نے کہیں کوئی کرپشن یا کک بیکس نہیں لیے ہیں اورنہ ہی ان کا معیار زندگی بے حد شاہانہ ہے۔ مگر نیب سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے ان افسران کو وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کرتی رہی ہے تاکہ شہباز شریف اور نواز شریف پر دبائو بڑھایا جائے لہٰذا یہ بات حقیقت ہے کہ سرکاری افسران کی اکثریت پر محض اختیارات کے غلط استعمال کے مقدمے قائم کئے گئے۔ مثلاً عمر چیمہ کی تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق 2018ء میں بیوروکریٹس کیخلاف 45 مقدمات محض بے ضابطگیوں کے قائم کئے گئے ہیں جب کے غیر قانونی مالی فائدہ اٹھانے کا محض ایک کیس تھا۔ سینکڑوں چھوٹے درجے کے ملازمین نیب کی حراست میں ہیں یا جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جن کا محض قصور یہ ہے کہ انہوں نے کسی نوٹیفکیشن کو جاری کیا اور بعض پرائیویٹ حضرات ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی کنٹریکٹ میں بولی دی یا کسی معاہدے پر بطور گواہ دستخط کئے ۔ مثلاً سرگودھا یونیورسٹی میں وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری کو ایک سال سے زیادہ حراست میں رکھا گیا کہ انہوں نے یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر یونیورسٹی کے سب کیمپس قائم کئے جہاں ڈاکٹر اکرم چودھری کوناجائز حراست میں رکھا گیا وہیں رجسٹرار صاحب کو بھی پکڑ لیا گیا حالانکہ انہوں نے تو محض وائس چانسلر کے آرڈرکو اپنے دستخطوں سے جاری کیا اور پرائیویٹ پارٹی کی طرف سے جن گواہان نے دستخط کئے انہیں بھی گرفتارکر کے کئی سالوں سے جیلوںمیں رکھا گیا ہے۔ صاف پانی کیس میں ایک سال سے زیادہ قمرالاسلام اور وسیم اجمل کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں جن کی ضمانتوںمیں ہائیکورٹ نے واضح لکھا کہ بادی النظر میں نیب نے ان کے خلاف بدنیتی سے کارروائی کی۔ (جاری)