گلوبل ویلیج کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات، نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کیلئے شیطانی اتحاد ثلاثہ پوری امت مسلمہ کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس مقصد کی راہ میں واحد ایٹمی صلاحیت رکھنے والا پاکستان ہے جس کی عسکری قوت نے ہمیشہ دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ کروسیڈ کا نعرہ بلند کرنے والوں نے اپنے لے پالک بھارت کے ذریعے بھی حملے کروائے، دندان شکن جواب ملا، نیو ورلڈ آرڈر کی بھٹی میں جھونک کر مملکت خداداد میں دہشت پھیلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ ہماری بہترین عسکری صلاحیت نے دہشت گردی کی اس جنگ کو بھی اپنے عزم واستقلال سے ناکام بنایا۔ لیکن جنگ یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ابھی پاکستان کو کئی اطراف سے گھیرا جا رہا ہے۔ کرپشن، اقرباء پروری اور قومی اداروں کو من پسند نااہل افراد کے سپرد کرکے وطن عزیز کی جڑوں کو مکمل طور پرگھن لگا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال اور بہترین عسکری صلاحیت کے باوجود پاکستان کو دوسروں کے سامنے جھکنا پڑ رہا ہے۔ مسلم امہ کے کئی ممالک جو باوسائل تھے اورکسی حد تک عسکری صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ انہیں ایک ایک کرکے اسی کروسیڈ نے تاراج کیا۔ آج یہی ممالک باامر مجبوری انہی شیطانی طاقتوں کے اشاروں پر پاکستان سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان گھمبیر حالات کا کس طرح تدارک ہوگا اور کس طرح ہم دوسروں کے دست نگر بننے کے بجائے اپنے وسائل سے استفادہ کرکے دشمن کے مذموم ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ہمیں ان حالات و واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے آج پاکستان پوری دنیا میں گویا تنہا کھڑا ہے۔ 60ء کی دھائی میں بھارتی سورماؤ ں کو شکست کا مزا چکھنے کے بعد ملک میں سیاسی انارکی پھیلا کر نفرت کی فضا پیدا کی۔ فوج کے نااہل سپہ سالار کی عیاشیوں کے سبب ملک دو ٹکڑے ہوا۔ ان حالات میں بھی آبی وسائل اور ان کے ذریعے سستی بجلی کے طفیل ہماری معیشت نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی بلکہ ہر سمت ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا۔ ہمارے بہترین کارکردگی رکھنے والے اداروں کے ماہرین نے گلف ممالک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ان وقتوں میں کراچی پورٹ دنیا کی بہترین پورٹس میں شمار ہوتی تھی۔ ہماری شپنگ کارپوریشن کا بھی طوطی بولتا تھا۔ پی آئی اے، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور ریلوے جیسے ادارے دنیا میں بہترین کارکردگی کے حامل گردانے جاتے تھے۔ آبی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ہماری زرعی و خوردنی صلاحیت فزوں تر تھی۔ ہماری عسکری صلاحیت سے پوری دنیا مرعوب تھی۔ جن ممالک میں فسادات زوروں پر تھے اور یو این او کے امن مشن میں طاقتور ممالک کے فوجی دستے بھی ناکام ہو چکے تھے۔وہاں پاک فوج کے دستے ہی تھے جنھوں نے کئی ممالک میں اپنی صلاحیتوں سے امن کے حصول میں کارکردگی دکھائی۔ آج بھی پاکستان واحد ملک ہے جہاں پاک فوج نے جوانمردی سے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو پرامن بنایا۔
لیکن! آج قومی اداروں کی کارکردگی اور ملکی معیشت کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے اداروں کو آپس میں گتھم گتھا ہوتے دیکھ کر۔ ہر ادارہ اپنے اندر ایک گروہ بن چکا ہے۔ اپنے ساتھیوں حواریوں کے ہر گناہ میں بھی انہیں بے گناہ تصور کرنا اداراتی محور بن چکا ہے۔ آئین کی ہر سطح پر دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ آئین کو صرف چند صفحات پر لکھا ایک ناول سمجھ کر اپنی پسند کے چند اقتباسات اخذ کر لئے جاتے ہیں ۔ پی آئی سی حملہ کیس میں جو بھی حقائق ہوں لیکن یہ بات واضح ہے کہ قوم کے دو بڑے اور قابل احترام طبقوں نے انتہائی عدام برداشت اور فہم و فراست سے عاری ہونے کا ثبوت دیا۔کالے کوٹ اور سفید کوٹ کی عزت کسی سے کم نہیں۔ ان دونوں پیشوں کے عزت و توقیر کے پیچھے مسیحائی اور کارسازی کا نمایاں سلوگن دکھائی دیتا ہے۔ مگر پی آئی سی واقعہ میں جس طرح عدم برداشت کا ثبوت دیا گیا۔ وہ کسی طور بھی ناقابل برداشت بلکہ ناقابل معافی ہے۔ یقینا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہمارا معاشرہ انسانی اقدار کھو بیٹھا ہے ؟یا وہ ماضی کے انہی ادوار سے گزر رہا ہے جہاں صرف جنگل کا قانون تھا اور صرف طاقتور کو حکومت کرنے کا اختیار تھا۔ پاکستان کے حالات و واقعات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ملک میں ہر طرف گروہی سیاست ہی نہیں، برادری ازم ہی نہیں بلکہ تمام قومی ادارے اور پیشے بھی گروہوں کا روپ دھار چکے ہیں۔
دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات اور نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کیلئے طاغوتی قوتیںاپنے مقصد کے حصول کیلئے واحد اسلامی ایٹمی قوت کی عسکری قوت کو پامال کئے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کر سکتیں چنانچہ سلو پوائزن کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی سازش پر سلسلہ وار عمل کیا جا رہا ہے۔ بے پناہ آبی و معدنی وسائل، ٹیکنوکریٹس کی ماہرانہ صلاحیتوں اور سب سے بڑھ کر پاک فوج کی عسکری صلاحیت جو کسی بھی مشکل میں دشمن کے دانت توڑنے کی طاقت رکھتی ہو، کروسیڈ کا نعرہ لگانے والوں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ اسلامی دنیا کے اتحاد کا بیج جو 70ء کی دھائی میں بویا گیا تھا۔ اس طاقتور درخت کو ناکارہ کرنے کیلئے وہی کھیل پھر رچایا گیا جو انگریز نے مغلیہ سلطنت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے کھیلا تھا۔ عراق ایران چپقلش کو ہوا دینے کے بعد عراق کویت جھگڑا کھڑا کرکے اقوام عالم کو صدام کے نام نہاد ہتھیاروں کا خوف دیالا گیا۔ لیبیا کی تیل کی دولت کو ناکارہ بنانے کیلئے قذافی کا خاتمہ کیا، مصر میں اپنی پسند کی حکومت لائی گئی ، شام کو تباہ کرنے کے بعد اب گلف ممالک میں چپقلش کو ہوا دے کر پہلی مرتبہ ان ممالک میں تفرقہ ڈالا گیا۔ یہ تمام سازشیں اور واقعات اس منصوبے کا حصہ تھے جس کے ذریعے ابلیسی قوتیں اسلامی امہ کو کمزور کرنا چاہتی تھیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ اس کی عسکری قوت کسی بھی ابلیسی فرعونی قوت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن مملکت خداداد کو اناہل مقتدر طبقہ نے بے پناہ قدرتی وسائل ہونے کے باوجود غیروں کا محتاج بنا دیا ہے. 1990-1ء میں جب منگلا، تربیلا سے حاصل ہونے والی بجلی کی لاگت صرف نوپیسے فی یونٹ تھی۔ IPP's سے 5000 میگاواٹ تھرمل بجلی گھروں کے 7 روپے یونٹ لاگت کے معاہدے کئے گئے۔ ان منصوبوں نے پاکستان کی معیشت کی کمر توڑ دی۔ ویلیو ایڈڈ انڈسٹریز کی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے برآمدات کو دھچکا لگا اور پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہی گیا جسے اورسیز پاکستانیوں کی ریمیٹنسز بھی کنٹرول نہ کر سکیں۔ آبی وسائل پر بھارتی ایجنٹوں کی کرمفرمائی کے نتیجے میں کوئی ڈیم نہ بنا۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے زرعی و خوردنی فی کس پیداوار کم ہوتی چلی گئی۔ان حالات میں مجبور ہوکر کوئلے کے بجلی گھر بنائے گئے لیکن اس کے لئے بھی امپورٹڈ کوئلہ استعمال کیا گیا۔حالانکہ لاکھڑا کول تھرمل پاور پراجیکٹ جو 1990-1 میں تعمیر ہوا تھا، یہاں کا کوئلے میں سلفرکی آمیزش پاکستان کے کسی بھی کوئلہ سے زیادہ تھی مگر جاپانی ٹیکنالوجی سے بنائے گئے اس پاور ہاؤس سے ماحولیات کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اگر آج بھی صائب فیصلے کئے جائیں اور ملکی قدرتی وسائل سے استفادہ کیا جائے تو نہ صرف ہمارا تجارتی توازن ہمارے حق میں ہو سکتا ہے بلکہ مغرب کی کسی بھی بلیک میلنگ سے بچ سکتے ہیں۔ اس کیلئے بھارتی ایجنٹوں کی ریشہ دوانیوں پر پابندی لگانا ہوگی۔ اپنے اداروں کو راہ راست پر لانا ہوگا اور قومی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہوگا۔ پاکستان پائندہ باد۔