لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں   

گورنمنٹ  کالج باغبانپورہ میں  یوم قائد کے حوالے سے ہونے والی تقریب کا مقصد  قائد اعظم  کی پاکستان کے لئے  صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا تقریب  میں شرکاء نے مختلف حوالوں سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا درحقیقت حکومت کرنا اور دلوں پر حکومت کرنا دو مختلف باتیں ہیں قائد اعظم دلوں پر حکومت کا فن جانتے تھے حکومت کرنا دراصل حکمت ہے ذرا سی بے احتیاطی بدعنوانی کے زمرے میں لا کھڑا کرتی ہے اور دلوں پر حکومت عبادت  جہاں کہیں حقوق العباد متاثر ہوں راہبر راہزن بن جاتے ہیں راہزنی بد عنوانی کی ہی ایک صورت ہے جب تک ہم قیام امن کے لئے قائد کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا  قائد نے میثاق لکھنو اور چودہ نکات میں اس نکتے کو سمجھایا کہ جب تک کمزور کے احترام سے واقفیت نہ ہو جب تک عزت نفس کا احترام نہ ہو تب تک امن کا قیام مشکل ہے درحقیقت نیند خواب غفلت کا دوسرا نام ہے اور قوموں کوراہنما ہی بیدار کرتے ہیں سچے اور کھرے لوگ اس پر پورا اترتے ہیں قائد اعظم میں دونوں خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں مسٹر ڈان کیمبل کو جب قائد نے انٹرویو دیا تو اس نے آپ سے سوال کیا کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں قائد نے جواب دیا کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں اسی لیے تو کہتا ہوں آئیے دوستوں کی طرح جدا ہو جائیں تاکہ بعد میں بھی دوست رہ سکیں ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ  کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جھگڑوں اور اختلافات میں سمجھوتہ ممکن ہے قائد نے جواب دیا ہاں اگر ہندوستان احساس برتری سے نجات حاصل کرلے  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان وہ بازی نہ جیت سکے جو قائد اعظم نے جیت لی تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ انگریز حاکموں کو ان کے انداز میں جواب دیتے ان ہی کے محاوروں اور ان ہی کے فلسفے میں سیاسی زمین پر ان کے انداز میں جواب دیا انہوں نے ثابت کیا کہ شمشیروسناں کو خیر باد کہہ کر پستول اور بندوق کی گولی چلائے بغیر آئینی حدود میں رہ کر جنگ لڑی جاسکتی ہے اور یہ صاحب بصیرت کا ہی کام ہے کہ وہ بغیر خون بہائے جنگ جیت لے وہ راستی کے سفر پر تھے منزل تو یقینی تھی انہوں نے پائیدار امن اور کامیابی کے لئے اسلام کی پیروی کا حکم دیا فرمایا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے سیرت النبیؐ ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے اسلام نے جمہوریت کی بنیاد چودہ سو برس پہلے رکھ دی تھی  ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے صداقت امانت اور دیانت کے اصولوں کو حکومت دولت اور شہرت کے اصولوں سے بدل دیا ہے اور اسی کو کامیابی کہتے ہیں تو پھر ہم قارون اور فرعون کو کامیاب ترین لوگ کیوں نہیں کہتے اس لئے کہ وہ پاتال کے رستے پر تھے اگر ہم نے مقصد حیات متعین نہ کیا تو اسی رستے کے مسافر ہوں گے اور بقول کنفیوشس  حکومت دلوں کی درستی اور زندہ دلی کا نام ہے اور زندگی بھی زندہ دلی کا نام ہے کیا فائدہ کہ زندگی ہو زندہ دلی نہ ہو ذات کے اندر سب مجرم ہوں بقول شاعر 
 غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں 
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

ای پیپر دی نیشن