لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں   

Jan 02, 2021

پروفیسر فہمیدہ کوثر

گورنمنٹ  کالج باغبانپورہ میں  یوم قائد کے حوالے سے ہونے والی تقریب کا مقصد  قائد اعظم  کی پاکستان کے لئے  صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا تقریب  میں شرکاء نے مختلف حوالوں سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا درحقیقت حکومت کرنا اور دلوں پر حکومت کرنا دو مختلف باتیں ہیں قائد اعظم دلوں پر حکومت کا فن جانتے تھے حکومت کرنا دراصل حکمت ہے ذرا سی بے احتیاطی بدعنوانی کے زمرے میں لا کھڑا کرتی ہے اور دلوں پر حکومت عبادت  جہاں کہیں حقوق العباد متاثر ہوں راہبر راہزن بن جاتے ہیں راہزنی بد عنوانی کی ہی ایک صورت ہے جب تک ہم قیام امن کے لئے قائد کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا  قائد نے میثاق لکھنو اور چودہ نکات میں اس نکتے کو سمجھایا کہ جب تک کمزور کے احترام سے واقفیت نہ ہو جب تک عزت نفس کا احترام نہ ہو تب تک امن کا قیام مشکل ہے درحقیقت نیند خواب غفلت کا دوسرا نام ہے اور قوموں کوراہنما ہی بیدار کرتے ہیں سچے اور کھرے لوگ اس پر پورا اترتے ہیں قائد اعظم میں دونوں خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں مسٹر ڈان کیمبل کو جب قائد نے انٹرویو دیا تو اس نے آپ سے سوال کیا کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں قائد نے جواب دیا کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں اسی لیے تو کہتا ہوں آئیے دوستوں کی طرح جدا ہو جائیں تاکہ بعد میں بھی دوست رہ سکیں ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ  کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جھگڑوں اور اختلافات میں سمجھوتہ ممکن ہے قائد نے جواب دیا ہاں اگر ہندوستان احساس برتری سے نجات حاصل کرلے  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان وہ بازی نہ جیت سکے جو قائد اعظم نے جیت لی تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ انگریز حاکموں کو ان کے انداز میں جواب دیتے ان ہی کے محاوروں اور ان ہی کے فلسفے میں سیاسی زمین پر ان کے انداز میں جواب دیا انہوں نے ثابت کیا کہ شمشیروسناں کو خیر باد کہہ کر پستول اور بندوق کی گولی چلائے بغیر آئینی حدود میں رہ کر جنگ لڑی جاسکتی ہے اور یہ صاحب بصیرت کا ہی کام ہے کہ وہ بغیر خون بہائے جنگ جیت لے وہ راستی کے سفر پر تھے منزل تو یقینی تھی انہوں نے پائیدار امن اور کامیابی کے لئے اسلام کی پیروی کا حکم دیا فرمایا اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے سیرت النبیؐ ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے اسلام نے جمہوریت کی بنیاد چودہ سو برس پہلے رکھ دی تھی  ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے صداقت امانت اور دیانت کے اصولوں کو حکومت دولت اور شہرت کے اصولوں سے بدل دیا ہے اور اسی کو کامیابی کہتے ہیں تو پھر ہم قارون اور فرعون کو کامیاب ترین لوگ کیوں نہیں کہتے اس لئے کہ وہ پاتال کے رستے پر تھے اگر ہم نے مقصد حیات متعین نہ کیا تو اسی رستے کے مسافر ہوں گے اور بقول کنفیوشس  حکومت دلوں کی درستی اور زندہ دلی کا نام ہے اور زندگی بھی زندہ دلی کا نام ہے کیا فائدہ کہ زندگی ہو زندہ دلی نہ ہو ذات کے اندر سب مجرم ہوں بقول شاعر 
 غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں 
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

مزیدخبریں