طرزِ زندگی اورعادات قوموں کے مزاج کاپتہ دیتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی قوم ذہین اور بلاصلاحیت ہے، ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا چکی ہے لیکن اس تیز رفتارگلوبل ویلیج کے دور میں کچھ چھوٹی چھوٹی عادات کو ترک کرنے یا اْن کے حوالے سے اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی لانے کی بھی اشد ضرورت ہے میں نے ہمیشہ محنت کرنے والے لوگوں کو سلام پیش کیا ہے اور اس سوچ کو مثبت قرار دیا ہے وہیں میں نے لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کرنے کی مخالفت بھی کی ہے محنت پر کھانا مثبت سوچ ہے لیکن مفت میں کھانے اور رہائش کا عادی کے اپاہے بنانا کوئی قابل ِ تعریف عمل نہیں ہے۔ بیکار لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا زیادہ ضروری تھا، میں اخوتّ والوں کے کام کو مثالی کہوں گی جنہوں نے لوگوں کو بلا سود آسان اقساط پر قرض فراہم کرکے آج اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اپنی زندگیاں سہولت کیساتھ بسر کرر رہے ہیں دوسری طرف آپ نے سڑکوں کے کناروں پر آج کل اکثر دیکھا ہوگا کہ چند چند گزکے فاصلے پر صحت مند برقعہ پوش خواتین ہاتھ جوڑ کر بیٹھی ہوتی ہیں کہ اْن کی امداد کی جائے اْن کا لباس اور صحت کہیں سے بھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ وہ حقدار یا معذور اور مجبور ہیں لیکن بھلا ہو اس قوم کا جو ایسے لوگوں کے پاس بھی قطاریں بنا کر اْن کی امداد کرنے کیلئے تیار کھڑے ہوتے ہیں میں سوچتی ہوں کہ کیا واقعی یہ نیکی ہے؟ ہم نے یہ کبھی معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے وارد ہوئے ہیں؟ آپ نے کبھی توجہ کی کہ یہ کوئی ایک فرد نہیں ایک گروہ ہے جہاں ایک عورت بیٹھی دکھائی دے گی وہیں فاصلے فاصلے پر آپ کو کئی لوگ بیٹھے دکھائی دیں گے اب کیا کہیں کہ سوئے ہوئے بے ہوش بچوں کو گود میں لے کر رات کی یخ بستہ سڑکوں پر بیٹھنے والیوں کے حوالے سے میں کئی بار لکھ چکی ہوں معلوم نہیں کہ اس طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی۔ کوئی ایسی تنظیم کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان باتوں کا جائزہ اور نوٹس لے سکے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ایک اورمسئلہ لاہور کی سڑکوں پر جابجا دیکھنے کو ملا ہے کہ مین سڑکوں اور چوک پر کچھ لوگ گوشت وغیرہ کے شاپر لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور گزرنے والے اْن سے یہ گوشت خرید کر پرندوں کو پھنکتے ہیں یہ تمام عمل سڑک کے کنارے پر ہی ہورہا ہوتا ہے اب ہوتا یہ ہے کہ یہ خوراک جھپٹنے کیلئے کوئوں سے زیادہ چیلیں اْمڈ آتی ہیں۔ چیل ایک بڑے اور طاقتور پروں والا پرندہ ہے، گوشت کے حصول کیلئے یہ پرندہ رش والی سڑکوں پر انتہائی قریب سے پرواز کرتا ہے۔گزرتے ہوئے اکثر ایسا محسوس ہوا کہ یہ موٹر سائیکل سواروں سے ٹکرا جائیں گی۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں سے ٹکرا بھی گئی ہوں۔ موٹر سائیکل پر اکثر خواتین اور بچے بھی سوار ہوتے ہیں۔ محکمہ جنگلات ہویا محکمہ ڈویلپمنٹ یا اور کوئی متعلقہ محکمہ اس مسئلے کی طرف انتہائی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ بظاہر چھوٹا اور عام نظر آنے والا مسئلہ خدانخواستہ کسی سنگین حادثہ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پرندوں کو خوراک ڈالنا اچھا فعل ہے لیکن اس کیلئے جگہ کا انتخاب انتہائی غلط ہے۔ خوراک شہر اور آبادی سے ہٹ کر یا پھر ایسی جگہوں پر پھینکنی چاہئے جہاں پرندے بھی سکون سے کھا سکیں اور انسانی آبادی کو بھی کوئی مسئلہ درپیش نہ آئے۔
ٹریفک پولیس والے بھی عجیب ہیں، ہیلمٹ اورلائسنس والوں کو روک لیتے ہیںجنہیں میں یہ نہیں کہہ رہی کہ نہ روکیں، ضرور روکیں لیکن ان کی ڈیوٹی یہیں پر ختم کیوں ہوجاتی ہے اب خون کھول کر رہ جاتا ہے جب ان ڈیوٹی آفیسرز کے قریب سے رونگ سائیڈ سے آنے والے بڑی دیدہ دلیری سے گزر جاتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھتاتک نہیں۔ رانگ سائیڈ سے آنا ایک معمول بن چکا ہے جو شدید اور سنگین حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔ دن بدن اس میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ نجانے کس بات کا انتظار ہے ہم اکثر فیصلے اْس وقت کرتے ہیں جب حادثے رْونما ہوچکے ہوتے ہیں۔ گھرجائے پناہ بھی ہے اور جائے سکون بھی۔ گھر کا مطلب سکون ہے۔یہ تمام احوال میں نے شہر لاہور کے مین علاقوں کے لکھے ہیں۔ پرانے لاہور یا سائیڈ کی آبادیوں کے نہیں۔ ابھی خبروں میں پوش علاقوں میں گندگی کے حالات دیکھ کر بھی افسوس ہوا۔ لاہور خوبصورت ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ خدارا اس کی خوبصورتی کو مجروح مت کیجئے۔
اربابِ اختیار سے التماس ہے کہ متعلقہ محکموں کو ان مسائل کی جانب متوجہ کیا جائے، لاہور کو خوبصورت اور پر سکون رہنے دیا جائے۔