ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا۔!

لیجیے مبینہ طور پر’پی ڈی ایم‘ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے، اپوزیشن کے اس اتحاد سے عوام کو کچھ اُمید (خوش فہمی) تھی جو ختم ہونے جا رہی تھی۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن موجودہ حکمرانوںکو قبول کرنے کی بجائے ان سے چھٹکارے کی کوشش میں ہے مگر اپنی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے اس کا بس نہیںچل رہادو سال اپنے حربوں کو ناکام ہوتا دیکھ کر آخرکار ’پی ڈی ایم‘ کا ڈول ڈالا گیا۔ غیر جانبدار تجزیہ نگار پہلے دن سے ہی پی ڈی ایم کی تشکیل، مقاصد اور احتجاجی طریقہ کار کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے ۔وہ اسے غیر فطری اتحادقرار دیتے تھے،وجہ عام فہم ہے ۔ملک کی دو بڑی پارٹیاںہی اصل میں’پی ڈی ایم‘ ہیں ، اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ یہ دونوں ماضی میں ایک دوسرے کی زبردست حریف رہیں، گوگذشتہ دو ادوارمیں دونوں میثاقِ جمہوریت کی بیساکھیوں کے سہارے پارلیمانی مدت تو پوری کر گئیں لیکن اس عرصہ میں ایک دوسرے سے انتقام سے باز نہ آئیں۔ ان جماعتوں کی مرکزی قیادت جن نیب کیسز کا سامنا کر رہی ہے۔یہ خود ان کے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے۔ موجودہ ’پی ڈی ایم‘ کے اتحاد کی وجہ اگر ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ہے’ مفاد‘۔ تمام پارٹیاں اپنے مفاد کی خاطر اس غیر فطری اتحاد کا حصہ ہیں۔’پی ڈی ایم ‘میں موجود کوئی ایک پارٹی بھی true spiritمیں نہ سیاسی ہے نہ ہی جمہوری۔ انہیں ’موروثی‘پارٹیاں کہنا درست ہوگا۔ یوں تو’ پی ڈی ایم‘ اپنی تشکیل کے ساتھ ہی تنقید کی زد میں ہے،عمران خان سمیت حکومتی رہنما اسے ’چوروں ‘ کا گروہ قرار دے رہے ہیں، یہ محض اتفاق نہیں بلکہ نا قابلِ تردید اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ’پی ڈی ایم‘ کی سبھی جماعتوں کی قیادت نیب کے ریڈار پر ہے،موجودہ اپوزیشن لیڈر اور نون لیگ کے مرکزی صدر شہباز شریف جوڈیشل ریمانڈر پر جیل میں ہیں۔پی پی پی کے شریک چیئرمین بیماری کے سبب ضمانت پر ہیں، مولانا کا کچا چٹھا کھلنے جا رہا ہے،انہیں اندر سے پارٹی رہنماوں کے اختلاف کا سامنا ہے اور ان کے سر پر( آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں)نیب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ گوجرانوالہ میں احتجاجی تحریک کے پہلے جلسے سے لگا تھا کہ آہستہ آہستہ تحریک میں شدت آتی جائے گی، لیکن اندرونی اختلافات نے(بہت حد تک گوجرانوالہ میں نواز شریف کے ویڈیو لنک خطاب میں فوج مخالف بیانیے کی وجہ سے) کراچی جلسے کے بعد ’پی ڈی ایم‘ کا احتجاجی غبار بیٹھنے لگا،لاہور کے جلسے نے (جس کی کامیابی پر بڑے دعوے کیے گئے ) لُٹیا ہی ڈبو دی،رہی سہی کسرمحترمہ بے نظیر شہید کی برسی کی تقریب میں زرداری صاحب نے پوری کر دی۔ ان کی تقریر نے اس اتحاد کی اصلیت کھول کررکھ دی ،یہی بات سب تجزیہ نگار  کہہ رہے تھے مگر اس پر لوگ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھے یا یوں کہہ لیں کہ ’’دل نہیں مانتے تھے‘‘ میثاقِ جمہوریت کو بنیاد بنا کر دونوں نے اپنی اپنی باری خوب ’’انجوائے‘‘ کی۔ پی ڈی ایم کی تیسری ( بڑی نہیں اہم) جماعت ’’جے یو آئی (ف) ہے جس پر دونوں بڑی جماعتیں کو انحصار کرنا پڑا، مولانا فضل الرحمان ماضی میں دونوں کے اتحاد ی رہے، یہ اتحاد نہ تو نظریاتی تھا نہ ہی اصولی بلکہ ’ مفاداتی‘ تھا۔ ’پی ڈی ایم‘ کی تانگا پارٹیوں کا مذکور ہی کیا۔ان میں سے زیادہ جماعتوں ماضی میں ایک دوسری کی حریف بھی رہیں اور حلیف بھی، آج وہ ’پی ڈی ایم‘ کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ، اتحاد کا مظاہرہ کر رہی ہیں مگر اندر سے تعصب ، بغض اور نفرت کی انتہا پر ہیں، فضل الرحمان سمیت اسفند یار، اچکزئی، شیرپاؤ ، ساجد میر، اویس نورانی کی پارلیمان میں نمائندگی ہی نہیں، اسمبلی میں نہ ہونے کا قلق ہی دراصل ان کے غصے کی وجہ ہے، مولانا گذشتہ بائیس سالوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں، اپنے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے انہوں نے مشرف جیسے آمر سے بھی سمجھوتہ سے گریز نہیں کیا۔ مولانا کا پلس پوائنٹ مدرسوں کے طالبِ علم ہیں جنہیں وہ کسی بھی وقت سڑکوں پر لا کر امن و امان کا مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں، ان کے اسی پلس پوائنٹ کی وجہ سے آج وہ دونوں بڑی پارٹیوں کی’’ آنکھ کا تارا‘‘ سمجھے جاتے ہیں ، اپنی اس حیثیت کا انہیں بخوبی علم ہے وہ اسے ’’کیش‘‘ کراونے کا ہنر بھی جانتے ہیں،مگر جے یو آئی کے اندرونی اختلافات کے سبب خود مشکل میں ہیں، یہ تو زرداری نے انکی استعفوںکی سیاست سے اختلاف کا عندیا دے کر انہیں بڑی شرمندگی سے بچا لیا،کیوں کہ  لانگ مارچ، دھرنے یا استعفوں سے کچھ بنے گا  نہیں،عدم اعتماد واحد آئینی راستہ ہے عمران سے چھٹکارے کا، جو ممکن دکھائی نہیں دے رہا،مبینہ طور پربے نظیر کی برسی کے بعد پی ڈی ایم عملاً منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے۔   

ای پیپر دی نیشن